Maktaba Wahhabi

445 - 829
اس کے بعد حضرت میاں صاحب رحمہ اللہ نے ابوداؤد، ترمذی ، نسائی، ابن ماجہ اور صحیح مسلم سے ان احادیث کو نقل کیا ہے جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ان آیات کا جواب دینا ثابت ہوتا ہے۔ اس کے بعد آپ ’’جامع ترمذی‘‘ کے حوالہ سے وہ حدیث لائے ہیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی خاموشی پر جنوں کے جواب دینے کا تذکرہ فرمایا: اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو ’’سورۂ رحمن‘‘ کی مخصوص آیت کے جواب کی ترغیب دی، ان تمام روایات کو نقل کرنے کے بعد میاں صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ ’’اس حدیث ’’ترمذی‘‘ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس قسم کی آیتوں کا جواب قاری یا مصلی کے اعتبار سے نہیں ہے۔ بلکہ اس کلام پاک کے معنی ٰ اور موقع کے لحاظ سے ہے۔ جب ہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سکوت پر اعتراض فرمایا: اور جنات کے جواب دینے کو مدحیہ طور پر ذکر فرمایا: حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پہلے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس جواب کی تعلیم نہیں فرمائی تھی۔پس معلوم ہوا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جن جن آیات کا جواب دیا ہے وہ اُس خصوصیت سے نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم امام یا قاری تھے بلکہ ان آیتوں کا معنیٰ اور موقع ہی ایسا ہے کہ جب وہ آیت پڑھی جائے، تو پڑھنے والا اور سننے والا ، اس کا مناسب جواب ، جو احادیث سے ثابت ہو، دے۔ اس کے بعد حضرت صاحب نے اپنی اس تقریر کی تائید میں جامع صغیر کی شرح، شرح صحیح مسلم اور کتاب الاذکار للنووی کی بعض عربی عبارات تحریر فرمائی ہیں جنھیں طوالت کے خوف سے حذف کر رہے ہیں۔ ان عبارات کا جوہری مفہوم یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا یہ قول﴿اَلَیسَ ذٰلِکَ بِقٰدِرٍ عَلٰی اَن یُّحیِیَ المَوتٰی﴾(القیامۃ:۴۰)اور ﴿اَلَیسَ اللّٰہُ بِاَحکَمِ الحَاکِمِینَ﴾(التین:۸) تو ’’بَلٰی‘‘ کہے۔ کیونکہ ان آیات میں سوال کیا گیا ہے جس کا جواب دینا چاہیے اور خطاب کا حق ہے، کہ مخاطب اس کا مناسب جواب دے۔ اگر نہ دے گا تو سامع غافل اور بے خبر تصور ہو گا یا جیسے کوئی جانور ہے جو آواز تو سنتا ہے لیکن مطلب نہیں سمجھتا یا کسی اندھے، گونگے، بہرے کی طرح جسے کچھ سمجھ نہ آئے۔ یہ حالت بہت بُری حالت ہے۔(مفہوم عبارت نقل کردہ میاں صاحب) اس ساری تحقیق کا خلاصہ یہ ہے، کہ مذکورہ آیات کا جواب قاری اور امام کی طرح سامع اور مقتدی کے لیے بھی جائز اور مستحب ہے اگرچہ واجب کسی پر نہیں۔ بعض نوجوان اہلِ علم ایسے مسائل میں تشدد پر اتر آتے ہیں اور پُرسکون ماحول میں توحُّش اور ارتعاش پیدا کرنا وجہِ افتخار خیال کرتے ہیں۔ یہ رَوش سلف کے تعامل کے قطعی خلاف ہے۔ ضعیف حدیثوں سے وجوب تو نہیں۔ استحباب بہرحال ثابت ہو جاتا ہے اور جہاں دلائل
Flag Counter