Maktaba Wahhabi

580 - 829
عمل اس حدیث کے مطابق ہے۔ وہ اس بات کو پسند کرتے ہیں، کہ آدمی پہلی دو رکعتوں میں زیادہ دیر نہ بیٹھے اور پہلی دو رکعتوں میں تشہد سے زیادہ کچھ نہ پڑھے۔ اگر کسی نے تشہد پر اضافہ کیا، تو اس پر دو ’’سجودِ سہو‘‘ لازم ہو جاتے ہیں۔ اس طرح شعبی وغیرہ سے بیان کیا گیا ہے۔ نیز امام ترمذی حدیث ہذا پر حکم لگاتے ہوئے رقمطراز ہیں۔ ((ھٰذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ إِلَّا أَن أَبَا عُبَیدَۃ،َ لَم یَسمَع مِن أَبِیہِ )) یعنی یہ حدیث حسن درجہ کی ہے۔ البتہ ابو عبیدہ کا اپنے باپ(عبد اﷲ) سے سماع ثابت نہیں۔‘‘ اور عمرو بن مُرّۃ کا بیان ہے۔ میں نے ابو عبیدہ سے دریافت کیا۔ کہ تجھے عبد اﷲ سے کوئی شے یاد ہے ؟ کہا: مجھے کوئی شئی یاد نہیں۔ عون المعبود(۱؍۳۷۸) اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (( وَھُوَ مُنقَطِعٌ لِأَنَّ أَبَا عُبَیدَۃَ لَم یَسمَع مِن أَبِیہِ )) [1] یعنی یہ حدیث منقطع ہے۔ اس لیے کہ ابو عبیدہ کا اپنے باپ سے سماع ثابت نہیں۔ لہٰذا یہ روایت قابلِ حجت نہ ٹھہری اور جہاں تک تعلق ہے اس روایت کا جو ’’مسند احمد‘‘ اور ’’ابن خزیمہ‘‘ میں ہے۔ جس میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : ’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تشہد کی تعلیم دی پس جب وہ (درمیانہ قعدہ) میں بیٹھتے اور (آخری قعدہ) میں بیٹھتے، تو بائیں ران پر بیٹھتے۔((التَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ ……عَبدُہٗ وَرَسُولُہٗ)) تک پڑھتے۔ پھر اگر درمیانے قعدہ میں ہوتے تو صرف تشہد پڑھ کر کھڑے ہو جاتے اور اگر اخیر میں ہوتے، تو تشہد کے بعد اﷲ سے جو چاہتے دعا مانگتے۔ پھر سلام پھیرتے۔‘‘ [2] روایت ہذا واضح طور پر اس بات پر دال ہے، کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے (قعدہ اُولیٰ )میں صرف تشہد پر اکتفاء کی ہے، لیکن روایت موقوف ہے۔ مرفوع نہیں۔ صاحب’’ المرعاۃ‘‘فرماتے ہیں: امام ابو حنیفہ نے اسی بات کو اختیار کیا،لیکن امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک دُرود کا اضافہ بھی درست ہے۔ پھر وہ اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: (( اَلظَّاھِرُ أَن لَا یَزِیدَ عَلٰی التَّشَھُّدِ، لٰکِن لَو زَادَ یَجِبُ عَلَیہِ سَجَدتَا السَّھوِ لِأَنَّہٗ لَم یَقُم دَلِیلٌ شَرعِیٌّ عَلٰی وُجُوبِ سَجدَۃِ السَّھوِ عَلٰی مَا زَادَ عَلَی التَّشَھُّدِ فِی القَعدَۃِ
Flag Counter