Maktaba Wahhabi

113 - 829
طبی طور پر بھی اس میں کئی فوائد اربابِ فن (اطباء) کے ہاں مقرر ہیں۔ جب کہ دیگر بعض طریقوں میں قوتِ باہ کے ماند (مردانہ قوت کمزور) پڑنے کا اندیشہ ہے۔ بالوں کے محل کی صفائی کے بارے میں حدیث میں لفظ ’’العانۃ‘‘وارد ہوا ہے۔ اس کی تشریح میں امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (( اَلمُرَادُ بِالعَانَۃِ: اَلشَّعرُ فَوقَ ذَکَرِ الرَّجُلِ، وَ حَوَالَیَہِ.وَ کَذٰلِکَ الشَّعرُ الَّذِی حَولَ فَرجِ المَرأَۃِ)) [1] یعنی ’’(العانہ) سے مراد وہ بال ہیں جو مرد کے عضوِ تناسل کے اوپر اوراس کے گرد ہوتے ہیں۔ اسی طرح عورت کی شرمگاہ کے وہ بال جو اس کے اردگرد ہیں۔ ابو العباس بن سریج رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ’’العانۃ‘‘ وہ بال ہیں جو پُشت پر اُگتے ہیں۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس حدیث کے مجموعے کا ماحصل یہ ہے کہ وہ بال جو ’’قُبُل‘‘ اور ’’دُبر‘‘ کے اوپر اور اردگرد اُگتے ہیں، اُن تمام کا مونڈنا مستحب ہے۔ جواباً : امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:لفظ ’’استحداد‘‘ سے مقصود اگر’’العانۃ‘‘ کا مونڈنا ہے جس طرح کہ نووی رحمہ اللہ نے بیان کیاہے تو اس صورت میں اس بات کی دلیل نہیں ہو گی کہ ’’دُبر‘‘ پر اُگے بالوں کو مونڈنا بھی سنت ہے۔ اگرچہ حلق (مونڈنا) بذریعہ اُسترا ہی کیوں نہ ہو، جس طرح کہ ’’قاموس‘‘ میں ہے ۔ بلا ریب لفظ ’’استحداد ‘‘ لفظ ’’العانۃ‘‘ سے زیادہ عام ہے۔ لیکن صحیح مسلم وغیرہ کی حدیث ’’عَشرٌ مِّنَ الفِطرَۃِ‘‘ میں ’’استحداد ‘‘ کے بجائے’’حلق العانۃ‘‘ کے لفظ وارد ہیں۔ اس سے مطلق ’’استحداد ‘‘ کی وضاحت ہو گئی جو حدیث’’خَمسٌ مِن الفطرۃ‘‘ میں ہے۔ بہر صورت یہ کہنا کہ ’’دُبُر‘‘ کے بالوں کا حلق سنت یا مستحب ہے، دعویٰ بِلا دلیل ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل یا کسی ایک صحابی کے عمل سے معلوم نہیں ہو سکا کہ انھوں نے ’’دُبُر‘‘ کے بالوں کو مونڈا ہو۔( نیل الأوطار :۱؍۱۲۴) فوقیت (بہتری) کے اعتبار سے جو حکم زیرِ ناف کے بالوں کا ہے وہی بغلوں کے بالوں کا بھی ہے۔ یعنی وقفہ چالیس یوم سے زائد نہیں ہونا چاہیے ۔ دونوں چیزوں کا تذکرہ ایک ہی حدیث میں ہے، تاہم دونوں میں فرق یہ ہے کہ حدیث میں زیرِ ناف کے بالوں کو مونڈنے کی تصریح (وضاحت)ہے، جب کہ بغلوں کے بالوں کو اکھیڑنے کی نص وارد( موجود) ہے۔ لہٰذا بغلوں کے بال اکھیڑنے کا اہتمام ہونا چاہیے۔ بأمرِمجبوری ’’حلق‘‘ بھی ممکن ہے، اس لیے کہ مقصود صفائی کا حصول ہے۔
Flag Counter