Maktaba Wahhabi

207 - 829
کے مطابق، جیسا کہ اکثر علماء حضرات سے سنا ہے کہ سات سال کی عمر کے بچے کو نماز کی ترغیب دیں۔ دس سال کا ہو جائے تو نماز نہ پڑھنے پر ماریں۔ مسجدیں ہی امن کی جگہ ہیں۔ اگر مسجد میں ہی خشوع والی نماز نصیب نہ ہوتو کہاں جائیں۔ کیونکہ بچوں کی وجہ سے جیسے اوپر ذکر کیا ہے توجہ بٹ جاتی ہے۔ بعض حضرات یہ حوالہ بھی دیتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما تھے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ ، جن کی عمر اس وقت ۴ سال تھی،مسجد میں آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر سے اتر کر ان کو گود میں لے لیا۔ اس حوالہ سے بچوں کو مسجد میں لانے یا آنے کا جواز نکلتا ہے۔ جواب: بلا قید عمر کے چھوٹے بچوں کا مسجد میں آنا یا لانا درست فعل ہے۔ صحیح حدیث میں وارد ہے کہ: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نواسی امامہ بنت زینب کو اٹھاکر نماز پڑھتے تھے: ((فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَہَا، وَإِذَا قَامَ حَمَلَہَا))بوقت ِ سجدہ اسے بٹھا دیتے اور جب قیام کے لیے اٹھنے لگتے تو اٹھا لیتے۔[1] شارح بخاری حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:((وَ عَلٰی جَوازِ إِدخَالِ الصِّبیَانِ فِی المَسَاجِدِ)) (فتح الباری۱؍۵۹۲) ’’اس حدیث میں بچوں کو مسجدوں میں لانے کا جواز ہے۔‘‘ نیز صحیح مسلم میں راوی کا بیان ہے:(( رَأَیتُ النَّبِیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یَؤُمُّ النَّاسَ وَأُمَامَۃُ بِنتُ أَبِی العَاصِ وَہِیَ ابنَۃُ زَینَبَ بِنتُ النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عَلَی عَاتِقِہِ، فَإِذَا رَکَعَ وَضَعَہَا، وَإِذَا رَفَعَ مِنَ السُّجُودِ أَعَادَہَا)) [2]’’ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کی امامت کراتے دیکھا جبکہ امامہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے پر سوار تھی…۔‘‘ اور سنن أبی داؤد میں راوی کے شک کے ساتھ نماز ظہر یا عصر کا ذکر موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ فرض نماز کی ادائیگی کے لیے محل و مقام مسجد ہے ۔ انہی طُرُق کے پیشِ نظر حافظ موصوف نے مذکور نتیجہ اخذ کیا ہے۔ اسی طرح دوسری روایت میں ہے، کہ ایک بچہ عمرو بن سلمہ قرأت میں امتیازی حیثیت کی بناء پر یا سات سال کی عمر میں عہدِ نبوی میں اپنی قوم کا امام تھا۔ [3] واقعہ ہذا سے ظاہر ہے کہ امامت کا شرف موصوف کو مسجد ہی میں حاصل ہوتا تھا اور پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما صِغرِ سِنِی (چھوٹی عمر) کے باجود جماعت میں شرکت فرماتے تھے۔ چنانچہ ان کا بیان ہے کہ
Flag Counter