Maktaba Wahhabi

258 - 829
ہوتا، اور ہماری طرح اس کے استعمال کو جائز سمجھتے، تو وہ بس اذانِ محمدی یعنی ایک ہی اذان پر اکتفا فرماتے کہ یہ آلہ ان کو اس زائد اذان کے اضافہ سے بے نیاز کردیتا۔‘‘ شیخ موصوف دوسرے مقام پر لکھتے ہیں: ((وَالخُلَاصَۃُ أَنَّ الَّذِی ثَبَتَ فِی السُّنَّۃِ، وَ جَرٰی عَلَیہِ السَّلَفُ الصَّالِحُ رضی اللہ عنہ ھُوَ الاِکتِفَائُ بِالأَذَانِ الوَاحِدِ عِندَ صُعُودِ الخَطِیبِ عَلَی المِنبَرِ وَ أَن یَّکُونَ خَارِجَ المَسجِدَ عَلٰی مَکَانٍ مُرتَفِعٍ)) [1] ’’خلاصۂ کلام یہ کہ سنتِ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ ثابت ہے اور سلف صالح کا جس چیز پر عمل رہا ہے، وہ تو بس ایک ہی اذان ہے جو خطیب کے منبر پر بیٹھ جانے کے بعد مسجد کے صحن وغیرہ میں کسی بلند مقام پر پڑھی جاتی ہے۔‘‘ اس تفصیل سے درج ذیل باتیں ثابت ہوئیں۔ اوّل: یہ کہ جناب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک سے لے کر خلیفۂ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دورِ خلافت تک جمعۃ المبارک کے لیے صرف ایک اذان ہی ہوتی تھی، اور وہ بھی اس وقت جب خطیب خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے منبر پر تشریف فرما ہو جاتا۔ یعنی عہدِ رسالت، عہدِ ابوبکر ،و عمر رضی اللہ عنہما کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ مروّجہ اذانِ عثمانی کے تصور سے قطعاً نابلد تھے۔ ثانی: یہ کہ چونکہ حضرت عثمان کے عہد میں مدینہ منورہ کی آبادی میں بکثرت اضافہ ہو گیا تھا اور مسجدِنبوی سے کافی دُور دُور تک نئے محلہ جات آباد ہو گئے تھے۔ مگر آبادی کی اس کثرت اور پھیلاؤ کے باوصف پورے مدینہ منورہ میں جمعہ صرف مسجد نبوی ہی میں پڑھا جاتا تھا اور خطبہ کے شروع میں پڑھی جانے والی متوارث اذان( اذانِ محمدی) مقامِ ’’زوراء‘‘ سے پرے بسنے والوں کو سنائی نہ دیتی تھی اور وہاں سے آتے آتے خطبہ ختم ہو جاتا تھا اور یوں یہ لوگ اوّل وقت پر آنے اور خطبہ سننے کی فضیلت سے محروم رہ جاتے تھے۔ لہٰذا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کی اس مشکل کے ازالہ کے لیے نمازِ جمعہ کو دوسری نمازوں پر قیاس کرتے ہوئے کہ ان کی اذانیں جماعت کھڑی ہونے سے پہلے کہی جاتی ہیں۔ خطبہ جمعہ کے وقت سے تھوڑا وقت پہلے مقام ’’زوراء‘‘ پر ایک زائد اذان کہلوانی شروع کردی گویہ مقام ’’زوراء‘‘ مسجد نبوی سے ایک فرلانگ اور اٹھاون گز کے فاصلہ پر واقع تھا۔ تاہم وہاں کے مکینوں کی
Flag Counter