Maktaba Wahhabi

264 - 829
أخرجہ أحمد و سنن أبی داؤد والترمذی وصححہ والحاکم [1] لہٰذا اذانِ عثمانی آج بھی قابلِ عمل ہے۔ جواب (۱): اس حدیث میں ’’سُنّتِی‘‘ کا لفظ پہلے ہے اور سنتِ خلفائے راشدین دوسرے نمبر پر ہے چونکہ حضرت سائب بن یزید کی مذکورۃ الصدر حدیثِ صحیح سے ثابت ہو چکا ہے کہ سنتِ نبوی صرف ایک ہی اذان ہے۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ ثابتہ کے ہوتے ہوئے چاروں خلفائے راشدین کے کسی اتفاقی عمل کی بھی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی۔ یہاں توسیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اکیلے ہیں۔ جواب (۲):سنتِ خلفائے راشدین سے مراد ان کا طریق نظام حکومت ہے۔ چنانچہ امام محمد بن اسماعیل الامیر الکحلانی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: ((فَإِنَّہٗ لَیسَ المُرَادُ بِسُنَّۃِ الخُلَفَائِ الرَّاشِدِینَ إِلَّا طَرِیقَتُھُمُ المُوَافَقَۃُ لِطَرِیقَتِہٖ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مِن جِھَادِ الأَعدَاء وَ تَقوِیَۃِ شَعَائِرِ الدِّینِ وَ نَحوِھَا)) [2] ’’خلفائے راشدین کی سنت سے ان کا وہ سیاسی اور انتظامی طریق کار مراد ہے جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق کے موافق ہو اور پھر یہ طریقِ کار دشمنانِ اسلام کے خلاف جہاد اور دوسرے دینی شعائر وغیرہ کی سربلندی اور تقویت سے تعلق رکھتا ہو۔‘‘ جواب (۳): ((وَمَعلُومٌ مِن قَوَاعِدِ الشَّرِیعَۃِ أَن لَیسَ لِخَلِیفَۃِ رَاشِدٍ أَن یُشرِعَ طَرِیقَۃً غَیرَ مَا کَانَ عَلَیھَا النَّبِیُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم )) الخ [3] اور یہ بھی معلوم ہے کہ قواعدِ شریعت کی رُو سے کوئی بھی خلیفہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق کے علی الرغم کوئی طریقہ وضع کرنے کا مجاز نہیں رکھتا۔‘‘ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے متعدد مقامات پر بہت سے مسائل میں حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کی مخالفت کی ہے۔ جیسے حج تمتع، مسئلہ اضافۂ مہر، کتابیہ عورت سے نکاح وغیرہ اور یہ مخالفت اس بات کی دلیل ہے، کہ یہ حدیث اپنے عموم پر محمول نہیں۔ ورنہ وہ ایسا ہر گز نہ کرتے، بلکہ خلفائے راشدین کے ہر ایک قول و فعل کو حجت گردانتے۔ مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ لہٰذا معلوم ہوا خلفائے راشدین کا وہی طرزِ عمل حجت ہو گا، جو سنتِ ثابتہ کے موافق ہو ۔ ورنہ ہر گز نہیں۔ ۲۔ اذانِ عثمانی پر صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہو چکا ہے۔ جیسا کہ ’’فَثَبَتَ الأَمرُ عَلٰی ذَالِکَ‘‘سے متبادر ہے
Flag Counter