Maktaba Wahhabi

281 - 829
پس جب سایہ گھٹتے گھٹتے انتہاء کو پہنچے۔ یعنی اس کے بعد نہ گھٹے۔ بلکہ بڑھنا شروع ہوجائے، تو یہ سایہ اصل ہے اور جس سایہ پر سورج ڈھلا ہے، اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ صرف وہی سایہ معتبر ہے، جو اس کے سوا ہے۔(شرح رسالہ ابن ابی زید) اور ’’شامی‘‘ میں ہے، کہ اگر کوئی لکڑی لے کر زمین میں زوال سے پہلے گاڑ دے اور سایہ کا انتظار کرے، جب تک وہ لکڑی کی طرف گھٹتا رہے، اور جب انتہاء تک پہنچ کر پھر بڑھنا شروع ہو، تو اس سایہ کو جو بڑھنے سے پہلے ہے ، یاد رکھیں یہی سایہ اصلی ہے اور جب سایہ اصلی سائے کے دو مثل یا ایک مثل ہو جائے تو ظہر کا وقت ختم اور عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور صاحب ’’العون‘‘ فرماتے ہیں: ((ضَابِطُ مَا یُعرَفُ بِہٖ زَوَالُ کُلِّ بَلَدٍ، اَن یُدَقَّ وَتَدٌ فِی حَائِطٍ، اَو خَشبَۃٍ موََازِیًا لِلقَطبِ یَمَانِیًا، اَو شِمَالِیًا ، فَیَنظَرَ لِظِلِّہٗ۔ فَمَھمَا سَاوَاہُ فَذَلِکَ وَسطُ النَّھَارِ۔ فَاِذَا مَالَ اِلَی المَشرِقِ مَیلًا تَامًا فَذَلِکَ الزَّوَالُ، وَ اَوَّلُ وَقتِ الظُّھرِ )) (۱؍۱۵۶) حدیث میں ہے: (( فَإِذَا اَقبَلَ الفَییُٔ فَصَلِّ)) [1] یعنی سایہ جب بجانبِ مشرق ظاہر ہو جائے، تو نماز پڑھ لو اور دوسری روایت میں ہے: ((حَتّٰی تَمِیلَ الشَّمسُ)) [2] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((وَ وَقتُ الاِستَوَائِ المَذکُورِ، وَ اِن کَانَ ضَیِّقًا لَا یَسَعُ صَلٰوۃً اِلَّا اَنَّہٗ یَسَعُ التَحرِیمَۃَ۔ فَیَحرُمُ تَعَمُّدُ التَحرِیمِ فِیہِ)) [3] یعنی آسمان پر سورج کے برابر ہونے کا وقت اگرچہ تھوڑا اور نماز کے لیے ناکافی ہے، لیکن حرمت کے اعتبار سے اس میں وسعت ہے۔ وہ اس طرح کہ حرام کردہ شے کا اس میں قصد کرنا حرام ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حُرمت کے چند لمحات ہیں، جو سورج چند سیکنڈ میں طے کر لیتا ہے۔ اس کا صحیح اندازہ کرنا مشکل امر ہے۔ البتہ احتیاطاً چار پانچ منٹ انتظار کر لیا جائے۔ حضرت محدث روپڑی رحمہ اللہ بھی بے حد تقلیل سے تعبیر فرمایا کرتے تھے۔ باقی سوال میں ذکر کردہ تحدید غیر متصور ہے۔
Flag Counter