Maktaba Wahhabi

328 - 829
’’امام کو درمیان کرو اور خلل بند کرو۔‘‘ اس حدیث میں امام کو درمیان رکھنے کا اشارہ ہے اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ درمیان سے آدمی کھینچے۔ کیونکہ کنارہ سے کھینچنے کی صورت میں اگر کنارہ میں کھڑا ہوجائے تو اس حدیث کا خلاف لازم آتا ہے اور اگر کھینچ کر درمیان لائے تو ضرورت سے زیادہ حرکت لازم آتی ہے۔ رہا درمیان میں خلل پیدا ہونا، سواس کے متعلق’’سُدُّوا الخَلَل ‘‘ کا ارشاد اسی حدیث میں موجود ہے ۔ بقیہ صف اس ارشاد کے تحت خلل کو خود ہی بند کرے گی۔ اس میں ایک فائدہ یہ بھی ہے، کہ ہر ایک کو تھوڑی تھوڑی حرکت کرنی پڑے گی جس سے نماز میں کچھ خلل نہیں آتا، اور کنارہ سے کھینچ کر درمیان لانے سے تو بعض دفعہ بہت زیادہ چلنا پڑتا ہے، جو بظاہر نماز کی شان کے خلاف ہے اور ہر ایک نمازی کا تھوڑا سرکنا منافی نہیں۔ پس ترجیح اسی کو ہے کہ درمیان میں سے کھینچے نہ کہ کنارہ سے۔(فتاویٰ أہل حدیث:۲؍۲۷۷) اس بارے میں علامہ البانی کا موقف یہ ہے، کہ اکیلا ہی نماز پڑھ لے۔[1] اورشیخ ابن باز فرماتے ہیں: ’’صف میں جگہ تلاش کرے یا امام کی دائیں جانب کھڑا ہو جائے۔‘‘ [2] مسئلہ ہذا میں میرا رجحان پہلے مسلک کی طرف ہے۔ کیونکہ اکیلے کھڑے ہونے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔[3] دوسرا ، فعل ہذا مطلوب صف بندی کے بھی منافی ہے، پھر شریعت نے اکیلی عورت کو صف قرار دیا ہے۔ بخلافِ مرد کے اس کے لیے ایسی کوئی نص موجود نہیں۔ باقی رہی یہ بات کہ کھینچنے والی حدیث ضعیف ہے۔ سو اس بارے میں تفصیلی بحث ’’الاعتصام‘‘ میں پہلے شائع ہو چکی ہے۔ کھنچنے کی تائید قصہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی ہوتی ہے جب کہ وہ نمازِتہجد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف کھڑے ہو گئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھیر کر دائیں طرف کردیا تھا۔[4] سوال: جب نمازی نماز پڑھنے کے لیے آتا ہے تو پیچھے جگہ بالکل نہیں ہے۔ ایک دو رکعت باقی بھی ہیں تو پھر آدمی کیا امام صاحب کے ساتھ جا کر مل سکتا ہے یعنی صف کے آگے سے امام کے دائیں جانب جا کر مل جائے یا کیا کرے؟ اگر مل جائے تو کہاں سے گزرے؟ جواب: پیچھے عدمِ گنجائش کی صورت میں بعد میں آنے والا جیسے بھی آسانی سے ممکن ہو، آگے گزر کر امام کی
Flag Counter