Maktaba Wahhabi

331 - 829
پانی ٹپک رہا تھا۔ پھر لوگوں کو نماز پڑھائی۔[1] 4۔ راوی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ : نماز کی تکبیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کہی جاتی تھی اور لوگ صفوں میں اپنی جگہ لے لیتے تھے۔ قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ کھڑے ہوں۔[2] 5۔ راوی جابر رضی اللہ عنہ : بلال جب زوال ہوتا اذان دیتے اور اقامت نہ کہتے یہاں تک کہ آپ تشریف لائیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے اور بلال رضی اللہ عنہ دیکھ لیتے تب تکبیر کہتے۔ حاصلِ مقصد: محولہ بالا روایات کو ملا کر پڑھنے سے میری دانست میں یہ مفہوم ہے کہ امام کو مسجد میں آتا دیکھ کر ہی تکبیر کہی جائے اور صف بندی بھی کر لی جائے خواہ امام کو مصلے پر پہنچنے میں کچھ دیر ہی کیوں نہ ہو جائے جیسے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل کرنے میں کچھ وقت لگا ہو گا لوگوں کو کھڑا ہونے کا حکم تنزیہی ہو گا تحریمی نہیں اور وہ بھی لوگوں کو تکلیف کے پیشِ نظر ، اہلحدیث کی مساجد میں عموماً یہی عمل ہے۔ اس سلسلے میں صحیح راہنمائی فرما کر عند اﷲ ماجور ہوں۔ جواب: اصل یہی ہے کہ مقتدی امام کی آمد کے وقت کھڑے ہوں۔ چنانچہ امام ابو داؤد نے اپنی ’’سنن‘‘ میں مسئلہ ہذا پر بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے: ((بَابُ فِی الصَّلوٰۃ تُقَامُ، وَ لَم یَاتِ الاِمَامُ یَنتَظِرُونَہُ قُعُودًا )) یعنی ’’نماز کی تکبیر ہو جاتی ہے اور امام نہیں آیا مقتدی بیٹھ کر انتظار کریں۔‘‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے آثار بھی اس امر کے مؤید ہیں۔ (العون:۱؍۲۱۳) اور جن بعض احادیث میں امام کی آمد سے قبل مقتدیوں کے کھڑا ہونے کا بیان ہے ۔ یہ صرف جواز پر محمول ہو گا۔ یا یوں کہا جائے کہ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں دراصل چوتھی حدیث ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ میں وارد فعل سے نہی کا بیان ہے۔ لفظ ’’فَلَا تَقُومُوا حَتّٰی تَرَونِی قَد خَرَجتُ‘‘[3]سے اس کی راہنمائی ہوتی ہے ۔ لوگوں کی عادت تھی کہ وہ اقامت کے وقت کھڑے ہو جاتے تھے۔ اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم برآمد نہ ہوتے ۔ا س سے منع کیا گیا ہے ممکن ہے کسی شغل کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جلدی برآمد نہ ہو سکیں۔ کھڑے انتظار گراں گزرے۔ لیکن بخاری میں انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بعد از تکبیر بعض حضرات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طویل سرگوشی کا بھی تذکرہ
Flag Counter