Maktaba Wahhabi

339 - 829
(( وَ مَن صَلّٰی بِلَا أَذَانٍ، وَ لَا إِقَامَۃٍ کَرِھنَا لَہٗ ذٰلِکَ، وَ لَا یُعِید)) [1] ’’ جس نے اذان اور اقامت کے بغیر نماز پڑھی، ہمارے نزدیک یہ فعل مکر وہ ہے۔ تاہم نماز لوٹانے کی ضرورت نہیں ‘‘اس کے شارح فقیہ ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ اگر کوئی بلا اذان اور اقامت کے نماز پڑھ لے تو ((فَالصَّلَاۃُ صَحِیحَۃٌ عَلَی القَولَینِ)) ’’دونوں اقوال (سنت مؤکدہ اور فرض کفایہ) کے مطابق نماز درست ہے۔‘‘ اس دلیل کی بناء پر کہ علقمہ اور أسود رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ ہم ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے ہمیں بلااذان اور اقامت کے نماز پڑھائی۔‘‘ (رواہُ الأثرم)مجھے معلوم نہیں ہو سکا کہ عطاء رحمہ اللہ کے ماسوااس میں کسی نے مخالفت کی ہو ۔کہا کہ جواقامت بھول جائے وہ نماز لوٹائے۔امام اوزارعی رحمہ اللہ نے بعض دفعہ کہا اگر نماز کا وقت ہو تو لوٹائے اور اگر وقت گزر جائے تو نہ لوٹائے۔ ((وَالصَّحِیحُ قَولُ الجَمھُورِ، لِمَا ذَکَرنَا، لِأَنَّ الاِقَامَۃَ أَحَدُ الأَذَانَینِ، فَلَم تَفسُدِ الصَّلَاۃُ بِتَرکِھَا کَالآخَرِ)) یعنی ’’مذکورہ وجوہات کی بناء پر جمہور کا قول صحیح ہے۔ اس لئے بھی کہ اقامت دو اذانوں میں سے ایک ہے۔ اس کے ترک سے نماز فاسد نہیں ہوگی، جس طرح کہ اذان کے ترک سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔‘‘ انتہی مسئلہ ہذا پر امام شوکانی رحمہ اللہ نے قدرے تفصیل سے بحث کی ہے۔جانبین کے دلائل جمع کرنے کے علاوہ فقہاءِ کرام کے مسالک کی بھی نشاندہی کی ہے ۔ان کا رجحان بھی وجوب کی طرف ہے۔ملاحظہ ہو!’’نیل الأوطار‘‘ (۲؍۳۳۔۳۴) جس طرح کہ امام ابن حزم رحمہ اللہ بھی ’’المحلیٰ‘‘ میں وجوب کے قائل ہیں۔ جماعت کے نامور محقق مولانا عبدالقادر حصاروی مرحوم نے اپنی تالیف ’’کتاب الأذان‘‘ میں اسی مسلک کو اختیار کیا ہے ۔ دوسری طرف صحیح بخاری کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ علی الاطلاق ( بغیر شرط کے) ان کی مشروعیت اور مسنون ہونے کے قائل ہیں ۔اسی طرح امام فقیہ مجتہد ’’ابن دقیق العید‘‘ فرماتے ہیں: (( وَالمَشھُورُ أَنَّ الأَذَانَ وَالاِقَامَۃَ سُنَّتَانِ۔ وَ قِیلَ: ھُمَا فَرضَانِ عَلَی الکِفَایَۃِ۔ وَ ھُوَ قَولُ الأَصطَخرِی مِن أَصحَابِ الشَّافِعِيِّ )) [2]
Flag Counter