Maktaba Wahhabi

372 - 829
حتی المقدور سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے باوجود اگر باز نہ آئے، تو امام و دیگر فرائض سے اسے معزول کردیا جائے۔ حدیث میں ہے:((اجعَلُوا اَئِمَتَکُم خِیَارَکُم)) [1] یعنی اچھے لوگوں کو امام مقرر کرو اور اگر یہ الزامات ذاتی عناد کی بناء پر لگائے گئے ہیں، تو اﷲ سے ڈرنا چاہیے۔ ﴿ اِنَّ السَّمعَ وَالبَصَرَ وَالفُؤَادَ کُلُّ اُولٰئِکَ کَانَ عَنہُ َمَسؤلًا﴾ (الاسراء: ۳۶) سوال: جو امام ہے وہ ہی خطیب ہے کیا اس غلط آدمی یعنی خطیب کے پیچھے نماز جمعہ بھی ادا کرنا ناجائز ہے؟ جواب: جو حکم جماعت کا ہے، وہی حکم جمعہ کی ادائیگی کا ہے۔ سوال: چند بندے ایسے ہیں جو کہ جس امام کے پیچھے نمازیں پڑھتے ہیں، اُس کو امامت کے لیے ناقص سمجھتے ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ وہ امام ناقص ہے یا نہیں۔ مگر یہ لوگ اپنے امام کو ناقص سمجھتے ہیں، تو کیا ناقص امام کی اقتداء میں ان کی نمازیں ادا ہو جائیں گی؟جواب قرآن و حدیث کی روشنی میں الاعتصام میں شائع کریں۔ جواب: وہ مقتدی جو اپنے امام کو ناقص سمجھتے ہیں۔ اگر اس میں کوئی ایسا عیب ہے، جو شرعی طور پر امامت سے مانع ہے۔ مثلاً : کبائر کا مرتکب ہے، تو ایسی صورت میں امام ہذا کو لازماً بدل لینا چاہیے۔ کیونکہ امام متقی ، پرہیز گار اور اخلاقِ حسنہ کا حامل ہونا چاہیے اور اگر اس کو ناقص سمجھنے کی کوئی دنیاوی وجہ ہے، تو بایں صورت مقتدیوں کو اظہارِ ندامت کرکے اپنے قبیح فعل سے تائب ہونا چاہیے اور آپس میں اخوتِ اسلامی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ورنہ اندیشہ ہے کہ ان کے اعمال میں نقصِ کبیر(بہت بڑا نقص) پیدا ہو جائے۔ سوال: ہمارے ایک نمازی بزرگ کے ہمارے امام صاحب کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں نہ وہ امام صاحب سے بول چال کرتے ہیں نہ سلام دعا۔ بلکہ یوں کہیے کہ وہ امام صاحب کو دل سے پسند ہی نہیں کرتے مگر وہ ان کے پیچھے نماز پنجگانہ ادا کرتے ہیں۔ کیا ایسی صورت میں ان بزرگ صاحب کی نماز ہو جاتی ہے؟ جواب: امام صاحب سے تعلقات کشیدہ ہونے کے باوجود شخص ہذا کا اس کی اقتداء میں نماز ادا کرنا مستحسن فعل ہے۔ نماز قبول ہو جائے گی۔ ان شاء اﷲ ۔ البتہ نماز یوں اور متعلقین احباب کو چاہیے کہ ان دونوں کی آپس میں صلح کے لیے کوشاں رہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عام حالات میں تین دن سے زیادہ آپس کے بائیکاٹ سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے۔ (واللّٰه ولیّ التوفیق)
Flag Counter