Maktaba Wahhabi

380 - 829
سوال: امام کثرت سے جھوٹ بولتا ہے ، کیااس کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے؟ جواب: جھوٹ بولنے والے امام کو تبدیل کردینا چاہئے۔ دارقطنی میں حدیث ہے کہ ’’امام بہتر لوگوں کو بنایاکرو۔‘‘ [1] اور اگر مقتدی اس کی تبدیلی پر قادر نہ ہوں تو اس کی اقتدا میں نماز تو ہوجائے گی لیکن پسندیدہ عمل نہیں۔ صحیح بخاری باب إمامۃ المفتون کے تحت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قول ہے: ((الصَّلاَۃُ أَحْسَنُ مَا یَعْمَلُ النَّاسُ، فَإِذَا أَحْسَنَ النَّاسُ، فَأَحْسِنْ مَعَہُمْ، وَإِذَا أَسَائُ وا فَاجْتَنِبْ إِسَائَ تَہُمْ)) یعنی’’نماز بہترین کام ہے جو لوگ کرتے ہیں۔ جب لوگ اچھا کام کریں تو توبھی ان کے ساتھ اچھائی کر اور جب برا کریں تو ان کی برائی سے بچ‘‘۔ اس پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ((وفیہ ان الصلاۃ خلف من تکرہ الصلاۃ خلفہ اولی من تعطیل الجماعۃ )) [2] ‘‘اس روایت میں یہ مسئلہ ہے کہ جس کی اقتدا میں نماز پڑھنامکروہ ہو، جماعت ترک کرنے سے بہتر ہے کہ اس کی امامت میں نماز پڑھ لی جائے۔‘‘ سوال: اگر امام اور خطیبِ مسجد میں درج ذیل خصلتیں پائی جاتی ہوں۔ (۱)جھوٹ بولنا (۲) وعدہ خلافی کرنا (۳)الزام تراشی ، غیبت، بہتان بازی، شرانگیزی (۴) مسجد کے چندے کا حساب نہ دینا (۵) مسجد کی چیزوں کو باوجود روکنے کے ذاتی استعمال میں لانا (۶) زیور اور جائیداد گروی رکھ کر اس پر منافع ، سود دینا (۷) اپنے مفاد کی خاطر سرکاری کارندوں کو رشوت دینا (۸)احتجاج کرنے والوں سے بدزبانی کرنا (۹)اپنے آپ کو عالم اور باقی سب کو جاہل کہنا وغیرہ۔ قرآن و سنت کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں کہ ایسا شخص امامت و خطابت کا اہل ہے؟ جواب: ’’ سنن دارقطنی‘‘ میں حدیث ہے کہ ’’اپنے امام بہتر لوگوں کو بنایا کرو۔‘‘[3] لہٰذا امام ہذا کو فوراً مصلائے امامت سے علیحدہ کر دینا چاہیے۔ ہاں اگر ان بدخصائل کا حامل آدمی زبردستی خطابت و امامت سے
Flag Counter