Maktaba Wahhabi

402 - 829
سینے کی تعریف اہل زبان کے ہاں یوں ہے: (( مَا دُونَ العُنُقُ اِلٰی قَضَائِ الجُوفِ )) [1] ’’گردن کے نیچے سے لے کر پیٹ کے آغاز تک۔‘‘ (۲) صورتِ سوال سے ظاہر ہے، کہ سائل کے ہاں یہ بات مسلمہ ہے، کہ نماز میں مونڈھے سے مونڈھا اور قدم سے قدم ملانا چاہیے، جس طرح کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے ۔ البتہ ان کو ملانے کی کیفیت میں تردّد ہے، کہ یہ کیسے ممکن ہے۔ گزارش ہے کہ ہمارے ہاں عام طور پر لوگ انگلیوں کے اطراف کو ملاتے ہیں۔ اس طرح سے واقعی صحیح کیفیت کا پیدا ہونا مشکل امر ہے، لیکن اگر ابتداء میں ہی اطراف انگلیوں کے بجائے قدموں کے ملانے سے آغاز کیا جائے، تو مشکل خود بخود حل ہو جاتی ہے ۔اس طرح سے چھوٹے بڑے قدم کا امتیاز بھی غالباً ختم ہو جاتا ہے۔ البتہ چھوٹے بڑے قد کی صورت میں کندھوں کی امتیازی کیفیت باقی رہتی ہے۔ بعض دفعہ پاؤں میں بھی کیفیت ہوسکتی ہے، تو اس کا جواب یہ ہے، کہ حدیث میں جو کچھ بیان ہوا، عام جسمانی ساخت کے اعتبار سے ہے۔ نوادر(نہایت قلیل تعداد) کو یہ حکم شامل نہیں۔ ہاں اپنی نیک نیت کے اجرو ثواب سے، وہ شخص محروم نہیں۔ (ان شاء اﷲ) مسنون کیفیت کو قائم رکھنے کا جذبہ اگر جانبین سے ہو پھر تو کوئی ایسی الجھن پیدا نہیں ہوتی۔ جس سے نماز میں خلل واقع ہو۔ باعثِ تشویش وہ صورت ہے۔ جب جانبین سے عملی اتفاق کا مظاہرہ نہ ہو تو ایسی شکل میں مزید الجھاؤ میں نہیں پڑنا چاہیے، تاکہ نمازی بحالتِ نماز عمل کثیر سے محفوظ رہ سکے جس کی وجہ سے نماز میں نقص پیدا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ جن احادیث میں قدم سے قدم اور کندھے سے کندھا ملانے کا ذکر آتا ہے۔ ان کا مقصد یہ ہے، کہ تمام نمازی صف میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کھڑے ہوں اور درمیان میں خالی جگہ نہ چھوڑیں کسی کے قدم کا چھوٹا یا بڑا ہونا، اس مقصد کے حصول میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ باقی رہی بات قدرتی ساخت کی تو اس سلسلے میں عرض ہے، کہ اگر کسی کے قدموں کا رُخ کچھ زیادہ ہی باہر کی جانب ہو اور انھیں سیدھاکرنا تکلیف کا سبب بنتا ہو، تو ایسے شخص کو تو اس حکم سے مستثنیٰ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ ﴿ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفسًا اِلَّا وُسعَھَا﴾ لیکن عام طور پر لوگوں کے قدم تھوڑی سی کوشش اور معمولی سے اہتمام سے سیدھے ہو جاتے ہیں۔ امام مقتدی اور
Flag Counter