Maktaba Wahhabi

406 - 829
طریقہ ہی صحیح ہے؟ جواب: اثر ہذا سند کے اعتبار سے اگرچہ قابل قبول ہے لیکن یہ اس بارے میں نص نہیں کہ دیگر مواقع پر فاتحہ کی قراء ت نہیں ہوسکتی،اس کتاب کے صفحہ پر ہے:ابوہریرہ کے شاگرد نے کہا : فکیف اصنع إذا جھر الإمام’’جب امام جہری قراء ت کرے تو مجھے کیا کرنا چاہئے؟‘‘ جواب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اقرا بہا فی نفسک ’’اپنے جی میں پڑھ لے۔‘‘ پھربیہقی نے اپنی سند کے ساتھ مکحول سے نقل کیا ہے: ((اقْرَأْ بِہَا یعنی بالفاتحۃ فِیمَا جَہَرَ بِہَا الْإِمَامُ إِذَا قَرَأَ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ وَسَکَتَ سِرًّا، وَإِنْ لَمْ یَسْکُتْ قَرَأْتَہَا قَبْلَہُ وَمَعَہُ وَبَعْدَہُ، لَا تَتْرُکَنَّہَا عَلَی حَالٍ )) [1] ’’جب امام جہری قراء ت کرے تو اس کی خاموشی میں مقتدی سری قراء ت کرے۔ اور اگر وہ خاموش نہ ہو تو اس سے پہلے اس کے ساتھ اور اس کے بعد قراء ت کو کسی حال میں مت چھوڑ۔‘‘ پھر حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کی مشہور روایت میں ہے کہ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھائی تو قراء ت کرنا مشکل ہوگیا۔ سلام پھیرنے کے بعد آپ نے دریافت کیا:مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ تم اپنے امام کی اقتدا میں قراء ت کرتے ہو، ہم نے عرض کی:ہاں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے فرمایا سوائے فاتحہ کے کچھ نہ پڑھو، جو فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں۔‘‘[2] اس حدیث میں امام کی قراء ت کے وقت مقتدی کی قراء تِ فاتحہ کا جواز ہے، اگر سکتات میں قراء ت کاتعین ہوتا تو آپ اس کی راہنمائی فرما دیتے۔ اس امر کی صراحت نہ کرنا جواز کی دلیل ہے۔ اصولِ فقہ کا مشہور قاعدہ ہے: تاخیر البیان عن وقت الحاجۃ لایجوز ‘‘ضرورت کے وقت وضاحت کو مؤخر کرنا جائز نہیں۔‘‘ سنن ابودا ؤد کی روایت میں اَلفاظ یوں ہیں: (( فَلَا تَقْرَئُ وْا بِشَیْئٍ مِنَ الْقُرْاٰنِ اِذَا جَھَرْتُ اِلَّا بِاُمِّ الْقْرْاٰن )) [3] ’’جب میں قراء تِ جہری کروں تو سواے اُمّ القرآن کے قرآن سے تم کچھ نہ پڑھو۔‘‘ یہ الفاظ اس بارے میں نص ہیں کہ امام کی جہری قراء ت کے وقت مقتدی کے لئے فاتحہ پڑھنے کا جواز ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ‘‘شوافع کا فاتحہ کی قراء ت کے بارے میں ا ختلاف ہے کہ آیا قراء ت فاتحہ امام کے سکتوں کے
Flag Counter