Maktaba Wahhabi

412 - 829
ہیں، لیکن﴿اَلحَمدُ لِلّٰہِ رَبِّ العَالَمِین﴾ اور دوسری آیت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنے بڑے وقفات ثابت نہیں ہیں جن میں سورۃ فاتحہ کی آیات امام کے پیچھے اس خاموشی کی حالت میں پڑھ سکیں۔ اس طرح اگر کوئی سورت فاتحہ پڑھے گا تو﴿غَیرِ المَغضُوبِ عَلَیھِم وَلاَ الضَّالِّینَ ﴾ کے بعد جب امام ’’امین‘‘ کہے گا تو مقتدی کو ابھی آیت پڑھنا باقی ہو گی۔ اس لیے وہ کبھی امام کے ساتھ آمین نہ کہہ سکے گا اور اس طرح وہ ثواب سے محروم رہے گا، جس کے متعلق یہ آیا ہے کہ جو شخص امام کی ’’امین‘‘ اور اس پر فرشتوں کی ’’امین‘‘ کہنے پر ان کی مطابقت میں ’’امین‘‘ کہے گا اس کے اگلے (پرانے) گناہ معاف ہو جائیں گے۔[1] جواب: حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا قول بایں الفاظ مروی ہے: ((عَن عَطَائِ بنِ یَسَارٍ، اَنَّہٗ اَخبَرَہٗ، اَنَّہٗ سَأَلَ زَیدَبنَ ثَابِتٍ عَنِ القِرَائَ ۃِ مَعَ الاِمَامِ، فَقَالَ: لَا قِرَائَ ۃَ مَعَ الإِمَامِ فِی شَیئٍ )) [2] ’’عطاء بن یسار نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے امام کے ساتھ قرأت کے بارے میں دریافت کیا، تو انھوں نے جواباً فرمایا : امام کے ساتھ کوئی قرأت نہیں۔‘‘ عبارت ہذا کے ترجمہ سے ظاہر ہے، کہ سائل نے انتساب میں جو لفظ۔ فاتحہ کا اضافہ کیا ہے، وہ صحیح مسلم میں نہیں ہے۔شارح مسلم امام نووی رحمہ اللہ نے اس اثر کے دو جوابات دیے ہیں، جن کا ماحاصل یہ ہے : ۱۔ ثابت شدہ احادیث ’’لَا صَلٰوۃَ لِمَن لَّم یَقرَأ بِاُمِّ القُراٰنِ۔ اِذَا کُنتُم خَلفِی ، فَلَا تَقرَؤُا اِلَّا بِاُمِّ القُراٰنِ‘‘ اور ان کے ہم معنی دیگر احادیث زید رضی اللہ عنہ وغیرہ کے قول پر مقدم ہیں۔ ۲۔ زید کا قول ’’ما بعد الفاتحہ‘ جَہری نمازوں میں قرأت پر محمول ہو گا۔ یہ تأویل ضروری ہے، تاکہ قول ہذا کی صحیح احادیث سے موافقت ہو سکے۔ جن میں فاتحہ کے علاوہ سورت کی قرأت سے مقتدی کو منع کیا گیا ہے اور علامہ عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ اس کے جواب میں رقم طراز ہیں: زید رضی اللہ عنہ کا یہ ’’أثر‘‘ ((ما عدا فاتحۃ)) (فاتحہ کے علاوہ ) پر یا ’’ترکِ جہر‘‘ پر محمول ہو گا، تاکہ اس میں اور احادیثِ مرفوعہ صحیحہ میں موافقت ہوجائے… اور اگر یہ ’’أثر‘‘ (ما عدا فاتحہ) یا ’’ترکِ جہر‘‘ پر محمول نہ ہو، تو احادیثِ مرفوعہ صحیحہ اس پر مقدم ہوں گی۔‘‘ [3]
Flag Counter