Maktaba Wahhabi

443 - 829
جمادی الاول ۱۳۸۲ھ سے اسی مضمون کا ایک سوال اور خاص اُن کے قلم سے، اس کا جواب نقل کرنا کافی سمجھتے ہیں۔ قرآنِ مجید کی جن سورتوں کے جوابات حدیث میں آگئے ہیں، وہ جس طرح امام کے لیے جائز اور مستحب ہیں، اسی طرح مقتدی کے لیے بھی جائز اور مستحب ہیں۔ بلکہ مندرجہ ذیل واقعہ سے ثابت ہوتا ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سامعین کا جواب دینا بہت محبوب تھا۔ چنانچہ ’’مشکوٰۃ‘‘ باب القراء ۃ میں ہے: ((عَنْ جَابِرٍ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی أَصْحَابِہِ، فَقَرَأَ عَلَیْہِمْ سُورَۃَ الرَّحْمَنِ مِنْ أَوَّلِہَا إِلَی آخِرِہَا فَسَکَتُوا، فَقَالَ: لَقَدْ قَرَأْتُہَا عَلَی الجِنِّ لَیْلَۃَ الجِنِّ فَکَانُوا أَحْسَنَ مَرْدُودًا مِنْکُمْ، کُنْتُ کُلَّمَا أَتَیْتُ عَلَی قَوْلِہِ ﴿فَبِأَیِّ آلاَء ِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ﴾ قَالُوا: لاَ بِشَیْء ٍ مِنْ نِعَمِکَ رَبَّنَا نُکَذِّبُ فَلَکَ الحَمْدُ )) (رَوَاہُ التِّرمِذِیُّ، وَ قَالَ ھٰذَا حَدِیثٌ غَرِیبٌ) [1] یعنی ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس آئے اور ’’سورۃ رحمن‘‘ ساری پڑھی۔ صحابہ رضی اللہ عنہ خاموش سنتے رہے۔ بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے یہ سورت جنوں پر پڑھی تھی جب بھی میں آیت ﴿فَبِاَیِّ اٰلآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ ﴾پر پہنچتا، تو وہ نہایت اچھا جواب دیتے ہوئے کہتے : ((لَا بِشَیئٍ مِّن نِعَمِکَ رَبَّنَا، نُکَذِّبُکَ، فَلَکَ الحَمد)) یعنی ’’اے ہمارے رب! تیری کوئی ایسی نعمت نہیں، جن کو ہم جھٹلا سکیں۔ پس تیرے لیے حمد ہے۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بہت پیاری لگتی تھی، کہ سامعین بھی جواب دیں۔ لہٰذا مقتدی کو جواب دینا چاہیے۔ یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے۔ مگر امام شافعی رحمہ اللہ نے اس سے استدلال کیا ہے، کہ سامع بھی جواب دے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے استدلال سے معلوم ہوتا ہے، کہ حدیث قابلِ عمل ہے، خاص کر فضائلِ اعمال میں۔ رہی یہ بات کہ نماز غیر نماز میں کوئی فرق ہے، یا نہیں؟ تواس کا جواب یہ ہے، کہ بظاہر کوئی فرق معلوم نہیں ہوتا۔ یہ ایسا ہی سمجھ لینا چاہیے، جیسے امام کی (آمین) کے ساتھ (آمین) کہی جاتی ہے۔ کیونکہ سماع قرأت کو مخل نہیں۔ اس کا (آمین) پر قیاس صحیح ہے۔‘‘(بحوالہ فتاویٰ اہلِ حدیث ،ج:۲،ص:۱۵۴،۱۵۵)
Flag Counter