Maktaba Wahhabi

487 - 829
دم تک آپ کی نماز اسی طرح رہی (یعنی وفات تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے رہے۔)‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات تک ساری نمازوں میں رفع یدین کی ہے۔ ہمارے شیخ محدث گوندلوی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں: ’’اور بعض حنفیہ کا حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہ بزیادت بیہقی ((فما زالت تلک صلوتہ حتی لقی اللّٰہ)) [1] کو موضوع کہنا اس بناء پر کہ اس میں ایک راوی عصمہ بن محمد ہے۔ اُس کو یحییٰ بن قطان نے کذاب اور دوسرا راوی عبدالرحمن بن قریش ہے۔ اُس کو ذہبی نے ’’میزان‘‘ میں ’’وضَّاع‘‘ کہا ہے۔ سو اوّلاً تو اس کا جواب یہ ہے کہ عصمہ بن محمد دو شخص ہیں: ایک عصمہ بن محمد بن ہشام بن عروہ ہے۔ وہ متروک الحدیث ہے۔ اس کو یحییٰ نے ’’کذاب‘‘ کہا ہے اور ابوحاتم نے ’’لیس بالقوی‘‘ اور دوسرا عصمہ بن محمد بن فضالۃ بن عبید الانصاری ہے۔ اس کو کسی نے ’’کذاب‘‘ وغیرہ نہیں کہا اور یہی عصمہ بن محمد انصاری راوی زیادتی ’’فما زالت تلک صلوتہ حتی لقی اللّٰہ ‘‘ الحدیث رواہ البیہقی کے ہیں۔ مولوی شوق نیموی حنفی نے اپنی بے علمی سے بوجہِ تعصب مذہبی عصمہ بن محمد انصاری کو مجروح قرار دے کر روایت کو ضعیف وموضوع کہہ دیا ہے۔ ورنہ عصمہ بن محمد انصاری پر کسی نے جرح، جو قادح ہو نقل نہیں کی۔ اس لیے حفاظِ حدیث مثل حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ، وحافظ زیلعی رحمہ اللہ وغیرہ نے اس روایت کو معرضِ استدلال میں ذکر کرتے ہوئے کوئی جرح نہیں کی اور محدثین کا ایک روایت کو نقل کرکے استدلال کرنا، اور اس پر جرح نہ کرنا، اس کے صحت کی دلیل ہے۔ جیسا کہ کہا مولانا محمود الحسن الدیوبندی الحنفی استاذ الاحناف الموجودین کتب معتبرہ میں مصرح موجود ہے، کہ نقل روایت کے بعد سکوت کرنا، یعنی روایت پر کسی قسم کا طعن وجرح نہ کرنا، اس امر کی دلیل ہے، کہ ناقل کے نزدیک وہ روایت مقبول ہے۔ ورنہ ساکت متصمہ بہ تقصیر ہوگا جو اکابر کی نسبت خیالِ باطل ہے۔ (دیکھو رسالہ احسن القری، ص:۱۳) دیکھئے اب ہمارے مولوی اشفاق الرحمن صاحب حدیث مذکور کی صحت تسلیم کرتے ہیں یا مولانا محمود الحسن کی تکذیب کرتے ہیں۔ ثانیاً: روایت ((فما زالت تلک صلوتہ حتی لقی اللّٰہ)) کی مؤیدات، وہ روائتیں بھی ہوسکتی ہیں، جن میں لفظ ((اذا کان یفعل)) وغیرہ آیا ہے۔ جو جرح عبدالرحمن بن قریش پر کی گئی ہے۔ وہ بھی
Flag Counter