Maktaba Wahhabi

501 - 829
اور روایت ابن عمر رضی اللہ عنہما ((رَأَیتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اِفتَتَحَ التَّکبِیر فِی الصَّلٰوۃِ ، فَرَفَعَ یَدَیہِ حِینَ یُکَبِّرُ)) [1] کے پیش نظر نمازی پہلے مکمل طور پر نماز کی کیفیت کو اختیار کرے۔ پھر جس حالت میں امام کو پائے اسے اختیار کرے۔ جواب ختم ہوا۔ حضرت حافظ صاحب نے یہ واضح نہیں فرمایا: کہ سینے پر ہاتھ باندھ کر امام کے ساتھ ملنا ہے یا کہ صرف ’’اﷲ اکبر‘‘ کہہ کر ۔ حضرت کے یہ الفاظ کہ ’’نمازی پہلے مکمل طور پر نماز کی کیفیت کو اختیار کرے۔ …الخ‘‘ بتا رہے ہیں، کہ ہاتھ وغیرہ سینے پر باندھ کر، پھر امام والی حالت میں داخل ہونا ہے، جب کہ راقم کا خیال ہے، کہ مقتدی پہلے ’’اللّٰہُ اَکبَرُ‘‘ کہے اور رفع یدین کرے۔ جیسا کہ حضرت حافظ صاحب نے تحریر فرمایا ہے: اور ہاتھ وغیرہ باندھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ سیدھا جس حال میں امام ہے، اسی حالت میں شامل ہو جائے۔ اگر ہاتھ باندھ کر شامل ہو، تو پھر مندرجہ ذیل حدیث سے مطابقت نہیں رہتی۔ حضرت علی اور معاذ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ جب تم میں سے کوئی نماز کو آئے تو ((فَلیَصنَع، کَمَا یَصنَعُ الاِمَامُ)) [2] اسے وہ کرنا چاہیے، جو کہ امام کرتا ہے۔ تنبیہ:اس کی سند میں اگرچہ ضعف ہے۔ مگر علامہ عبید اللہ رحمانی رحمہ اللہ نے اس کو شواہد کی بناء پر قابلِ قبول قرار دیا ہے۔ [3] اور علامہ مرحوم اس کی تشریح میں رقمطراز ہیں: (( أَی لِیُکَبِّر تَکبَیرَۃَ الاِحرَامِ، وَ یُوَافِقُ الاِمَامَ فِیمَا ھُوَ مِنَ القِیَامِ ، أَوِ الرَّکُوعِ، أَو غَیرِ ذٰلِکَ ، وَ لَا یُخَالِفُہُ بِأَدَائِ مَا سَبَقَ مِنَ الصَّلٰوۃِ)) یعنی تکبیرِ تحریمہ کہے اور قیام ، رکوع، سجود وغیرہ میں (مقتدی) امام کی موافقت کرے۔سابقہ نماز کی ادائیگی کرکے امام کی مخالفت نہ کرے۔ نوٹ: قیام میں آکر ملنے والے مقتدی کو ہاتھ باندھنے ہی ہیں۔ کیونکہ امام بھی اس حالت میں ہے مگر بعد ازاں مقتدی پابند نہیں۔ ’’اﷲ اکبر‘‘ کہہ کر ’’رفع الیدین‘‘ کرے اور امام کی حرکات و سکنات میں شریک ہو
Flag Counter