Maktaba Wahhabi

603 - 829
بلاشبہ ثابت ہے اور اجتماعی دعا کا ثبوت بوقت ِ ضرورت ہے۔ جیسے بارش وغیرہ کی طلب کے لیے اور جہاں تک تعلق ہے نماز کے بعد اجتماعی دعا کا یہ محل تأمّل (قابلِ غور) ہے اور انفرادی دعا کا کئی ایک احادیث سے ثبوت ملتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے:’’باب الدعا بعد الصلوٰۃ‘‘ یعنی نماز سے فراغت کے بعد دعا کرنا مشروع ہے۔ شارح بخاری حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ مصنف کا مقصود ان لوگوں کی تردید کرنا ہے، جو نماز کے بعد دعا کو غیر مشروع سمجھتے ہیں۔ اسی طرح داخلِ نماز(نماز کے دوران میں) بھی دعا کے چھ مقامات ہیں۔ (۱)تکبیر تحریمہ کے بعد۔ (۲) حالت اعتدال میں۔ (۳) بحالت رکوع۔ (۴) بحالتِ ِ سجدہ۔ (۵) دوسجدوں کے درمیان۔ (۶) تشہد میں (۷) اسی طرح قنوت میں بھی دعا ہے۔(۸) قرأت کے وقت جب کہ مصلّی(نمازی) کا گزر آیت رحمت یا آیت عذاب سے ہو۔ [1] دعا کے جملہ آداب میں سے یہ بھی ہے، کہ فضیلت کے اوقات کا اہتمام کیا جائے۔ مثلاً: بحالتِ سجدہ اور اذان کے وقت نیز باوضو ہو، نماز سے فراغت پا چکا ہو۔ قبلہ رُخ ہو اور دعا میں رفع یدین کرے۔ گناہوں کا اقرار، توبہ کا اظہار اور خلوص کا مظاہرہ کرے۔ دعا کا آغاز اللہ کی حمد و ثنا اور نبی صلی الله علیہ وسلم پر درود سے ہو اور اللہ کے اسمائے حسنیٰ کے ساتھ سوال کیا جائے۔ [2] سائل نے دو متضاد فتووں کے حوالہ سے نماز کے بعد اجتماعی دعا کے بارے میں استفسار کیا ہے۔ بلکہ جواز پر دال بعض حوالہ جات بھی صلوٰۃ الرسول مؤلفہ مولانا محمد صادق سیالکوٹی رحمہ اللہ سے نقل کیے ہیں۔ ان کے بارے میں مزید تحقیق کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ بلاشبہ صلوٰۃالرسول کو قبولیت عامہ حاصل ہے۔ اسی بناء پر پاک و ہند میں اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ بلکہ مختلف زبانوں میں اس کے ترجمے بھی ہو چکے ہیں۔ اس کی شہرت کے پیشِ نظرشاگرد رشید حافظ عبدالرؤف بن عبدالحنان بن حکیم محمد اشرف سندھو فارغ التحصیل (شریعت کالج مدینہ یونیورسٹی) مقیم شارجہ (متحدہ عرب امارات) نے اس پر تعلیق اور تخریج کا اہتمام فرمایا ہے۔ جس سے اس کے حسن میں مزید اضافہ ہوا ہے: یزیدک وجہہ حسنا … اذا ما زدتہ نظرا اللہ رب العزت ان کی مساعی جمیلہ کو قبول فرما کر عُقبیٰ کے لیے ذریعہ نجات بنائے۔ آمین! امید ہے بارش کا پہلا قطرہ ثمر آور ثابت ہو گا۔ (ان شاء اللہ تعالیٰ)
Flag Counter