Maktaba Wahhabi

608 - 829
جس طرح کہ بہت ساری روایات میں وارد ہے۔ اسی کو لازم پکڑنا چاہیے۔ الخَیرُ کُلُّ الخَیرِ فِی الاِتِّبَاع۔ باقی رہی یہ بات کہ ضعیف حدیث فضائلِ اعمال میں قابلِ اعتبار ہے یا ضعیف کے بالمقابل صحیح نہ ہو تو اس پر بھی عمل رَوَا ہے۔ یہ بڑی پُرفریب اور پرکشش بات ہے۔ اس کی آڑ میں بہت سارے لوگ من گھڑت اور موضوع روایات کو اپنے لیے سرمایۂ افتخار تصور کرتے ہیں، جس طرح کہ واقعات شاہد ہیں۔ بالخصوص روافض اور بریلوی قبوری مسلک کی بنیاد ہی اس پر ہے۔ یہ عقیدہ و مسلک بیش بہا خرابیوں کا باعث اور دین میں اضافہ کاموجب بناء ہے۔ شریعت کی نگاہ میں اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔ چاہے بظاہر کتنا ہی خوبصورت اور مزخرف محل کیوں نہ نظر آئے۔ یاد رہے تار عنکبوت کا سہارا لینا دراصل بدعات و خرافات کا دروازہ کھولنا ہے۔ جو سراسر خسارے کاسودا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جو شَے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دین نہ تھی۔ وہ آج بھی دین نہیں ہوسکتی۔‘‘ اصل صورتِ حال یہ ہے، کہ ضعیف روایات پچاس سے زائد اقسام پر مشتمل ہیں۔ جن کی طرف حافظ ابن الصلاح نے ’’علوم الحدیث‘‘ میں اشارہ کیا ہے اور ’’توضیح الأفکار شرح تنقیح الأنظار‘‘ میں اس کی جملہ تقاسیم کی تفاصیل موجود ہیں، جن کی معرفت سے اربابِ ذوق کے لیے صحیح منزل کا تعین کرنا سہل و آسان ہو جاتا ہے۔ ویسے محققین اہلِ علم تو مطلقاً ضعیف روایت کو ناقابلِ عمل تصور کرتے ہیں۔ چنانچہ اصولِ حدیث کی مشہور کتاب ’’قواعد التحدیث‘‘ میں علامہ جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ ’’ ائمہ حدیث کی ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ ضعیف پر عمل مطلقاً ناجائز ہے۔(خواہ مسئلہ وجوبی ہو یا استحبابی) ان میں سے ابن معین، بخاری، مسلم، ابوبکر ابن العربی وغیرھم ہیں۔ ابن حزم کی بھی یہی تحقیق ہے۔‘‘ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ ائمہ میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ کسی ضعیف حدیث سے کسی شئی کو واجب یا مستحب قرار دینا جائز ہے اور جو یہ کہتا ہے، وہ اجماع کی مخالفت کرتا ہے۔ [1] اور نواب صدیق حسن خاں اپنی عربی تفسیر ’’فتح البیان فی مقاصد القرآن‘‘ کے مقدمہ میں فرماتے ہیں:’’وہ شخص غلطی پر ہے، جو عقیدہ رکھے کہ فضائلِ اعمال میں ضعیف احادیث کو بھی لینا جائز ہے اب ہم بعض محدثین کی ضعیف احادیث کی روایت اور شرائط پر بعض گزارشات پیش کرتے ہیں۔ حافظ سخاوی رحمہ اللہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے حوالہ سے فرماتے ہیں:ہم نے اپنے اُستاذ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سے کئی بار سنا اور انھوں نے مجھے اپنے ہاتھ سے لکھ کردیا کہ ضعیف حدیث پر عمل کے لیے تین شرطیں ہیں۔ پہلی جس پر اتفاق ہے یہ
Flag Counter