Maktaba Wahhabi

615 - 829
واقعہ کے سیاق سے ظاہر ہے کہ یہ آدمی دوسروں کے سامنے انفراداً نماز پڑھ رہا تھا۔ اس لئے یہ قصہ نفلی نماز کا ہے، نہ کہ فرض کا۔ بنا بریں زیر بحث مسئلہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ ۶۔ نیز ان کا استدلال اس روایت سے بھی ہے کہ جو آدمی ہر نماز کے بعد اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر کہے:اللہم إلٰہی وإلٰہ إبراہیم...الخ تو اس کے ہاتھوں کو اللہ نامراد نہیں پھیرتا۔(عمل الیوم واللیلہ از ابن السنی:ص ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی سند میں راوی اسحق بن خالد ضعیف ہے اور عبدالعزیز بن عبدالرحمن بھی اس میں سخت ضعیف ہے اور تیسرا راوی خصیف بن عبدالرحمن کمزور حفظ والا (سیی الحفظ) ہے یعنی اس کا حافظہ خراب ہے اور امام احمد نے اس کو ضعیف کہا ہے۔ ۷۔ بعض لوگ اس روایت سے بھی استناد لیتے ہیں کہ ’’جو شخص کسی قوم کا امام ہو تو اسے اپنے لئے ہی دعا نہیں کرنی چاہئے، اگر اس نے ایسا کیا تو اس نے قوم کی خیانت کی۔‘‘ [1] اس کا جواب یہ ہے کہ ابن خزیمہ نے اپنی صحیح(۱؍۶۳) میں اور علامہ البانی نے ضعیف الجامع میں اس کو ضعیف کہا ہے۔(۲۵۶۵) بفرضِ تسلیم، اس کا تعلق اندرونِ نماز دعاوں سے ہے، نماز سے فراغت کی دعاوں سے نہیں۔ دوسری طرف امام ابن قیم نے‘‘زاد المعاد‘‘میں اس امر کی تصریح کی ہے کہ تمام نماز میں نبی صلی الله علیہ وسلم کی دعائیں بصیغہ مفرد ہیں تو پھر مقتدیوں کی شرکت کا کیا معنی ہوا، یہ بھی غور طلب معاملہ ہے۔ اور ابن خزیمہ نے حدیث ِہذا کو غیر ثابت کہا ہے اور دعائِ استفتاح اللہم اغسلہ من خطایای... پر انہوں نے باب قائم کیا ہے کہ امام کو اپنے لئے خصوصی دعا کرنے کی رخصت ہے۔ ملاحظہ ہو صحیح ابن خزیمہ (۳؍۶۳) اور امام ابن تیمیہ کا خیال ہے کہ یہ حدیث دعائِ قنوت وغیرہ کے بارے میں ہے۔[2] نیز اس حدیث میں صرف امام کے لئے ہدایت ہے کہ اپنے لئے خاص دعا نہ کرے، اس میں یہ تو نہیں کہ مقتدی بھی ساتھ دعا کریں، لہٰذا اس حدیث سے بھی اجتماعی دعا پر استدلال کرنا ناقابل قبول ہے اور پھر یہ خطاب بحالت ِامامت ہے، سلام پھیرنے کے بعد والی کیفیت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ عرصہ ہوا،گلبرگ لاہور میں ایک تقریب تھی جس میں استاذِ مکرم حافظ محمد محدث گوندلوی رحمہ اللہ ، مولانا محمد
Flag Counter