Maktaba Wahhabi

628 - 829
کرام رحمہما اللہ کا اجماع نقل کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو! (( لَیسَ المُرَادُ بِالضَعِیفِ عِندَہُ البَاطِلَ، وَ لَا المُنکَرَ بَل الحَدِیثُ الضَعِیفُ عِندَہُ قَسِیمُ الصَّحِیحِ ، وَقِسمٌ مِن اَقسَامِ الحَسَنِ۔)) ’’ضعیف حدیث سے مراد باطل، منکر، مردود اور قابلِ انکار نہیں ہے۔ بلکہ ضعیف حدیث کا درجہ حسن حدیث جیسا ہے، عمل و قول میں۔ ‘‘ پھر لکھتے ہیں: (( لَیسَ اَحَدٌ مِنَ الأَئِمَۃِ اِلَّا ھُوَ مُوَافِقُہٗ عَلٰی ھَذَا الاَصل)) ’’کوئی بھی اہل حدیث امام اس مسئلہ میں اس بات کا مخالف نہیں ہے۔ سب موافق ہیں۔‘‘ نیز امام ترمذی رحمہ اللہ تو کتاب’’ العلل‘‘ میں فرماتے ہیں: (( قَد رَوٰی غَیرُ وَاحِدٍ مِنَ الاَئِمَۃِ عَنِ الضُّعَفَائِ )) ’’یعنی اکثر ائمہ حدیث نے ضعیف لوگوں کی روایات کو بیان کیا ہے۔‘‘ ہاں! اس بات میں بھی کوئی شک نہیں، کہ اگر ضعیف حدیث کے مقابلہ میں صحیح حدیث یا واضح دلیل موجود ہو تو ضعیف حدیث پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ (ص:۴۶) پر لکھا ہے: ’’کسی ضعیف حدیث کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہوتا، کہ یہ لازماً ناقابلِ عمل ہے… بلکہ یہ ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ دین وشریعت کا کافی حصہ، انہی ضعاف احادیث پر مشمل ہے۔‘‘ اپیل ہے! کہ آپ براہِ مہربانی اس تحریر کا مدلل جواب عنایت فرمائیں گے۔شکریہ جواب: حافظ نور الدین ہیثمی رحمہ اللہ نے ’’مجمع الزوائد‘‘ میں جو روایت ہذا کے راویوں کو ثقہ قرار دیا ہے۔ یہ بات فی الواقع نفس حدیث کی صحت کو مستلزم نہیں، کیونکہ امکان ہے درمیان سند میں انقطاع ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ صاحب ’’المجمع‘‘ پر توثیق رواۃ کے بارے میں کلی اعتماد کرنا صحیح نہیں۔ کیونکہ کتاب ہذا میں ان کے کئی ایک اوہام اہلِ علم میں معروف ہیں۔ ہمارے ایک فاضل دوست شیخ عاصم اردنی استاذ مدینہ یونیورسٹی نے کتاب ہذا کی تخریج پر پنجاب یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ لیکن ان کی کاوش ابھی تک سامنے نہیں آسکی۔ جب تک اس حدیث کی اصل سند سامنے نہ آئے، اس وقت تک توقف کرنا چاہیے اور اصل روایت طبرانی میں بروایت محمد بن ابی یحییٰ مروی ہے اور اگر کوئی اس حدیث کی صحت کا دعویدار ہے، تو پہلے اسے اصل سند پیش کرنی چاہیے، تاکہ معیارِ محدثین پر اس کو پرکھا جاسکے۔ ورنہ یہ حدیث بالکل صحیح اور قابلِ عمل ہے کے دعویٰ کی حقیقت ، تارِ عنکبوت سے زیادہ نہیں ہوگی۔
Flag Counter