Maktaba Wahhabi

662 - 829
اور نیز امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (( اَلحَدِیثُ یَدُلُّ عَلٰی مَشرُوعِیَّۃِ قَضَائِ الوِترِ اِذَا فَاتَ )) [1] ’’جب وِتر رہ جائیں تو یہ حدیث ان کی قضاء دینے پر دلالت کرتی ہے۔‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وتروں کی قضاء علیحدہ حکم رکھتی ہے۔ علاوہ ازیں اورادو وظائف رہ جائیں توان کی جگہ بارہ رکعات کفایت کرتی ہیں۔ وتروں کی قضاء کے بارے میں پیارے پیغمبر حضرت محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقاعدہ قضاء کا حکم دیا ہے اگر یہ بھی عام نوافل یا وظائف کی حیثیت رکھتے ہوتے تو ان کا علیحدہ حکم ضروری نہ تھا۔ واﷲ اعلم۔ جواب: محترم مولانا حافظ محمد عباس صاحب آنجناب کا ملفوف ملا۔ بندہ کو کلمۂ خیر سے یاد کرنے کا شکریہ۔ اپنی نیک دعاؤں میں ہمیشہ یاد رکھیں۔ (جزاکم اﷲ خیراً) علمائے سلف و خلف کے ہاں یہ بات معروف ہے کہ قضاء وِتر کا مسئلہ سخت اختلافی مسائل میں سے ایک ہے۔جانبیَن کے دلائل مطولات میں مرقوم ہیں۔ جن کا اس مختصر میں احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ سرِدَست مسئلہ ہذا میں جو موقف آپ نے اختیار کیا ہے۔ اس سے کلی اتفاق کرنا مشکل ہے۔ رات کی نماز فوت ہو نے کی صورت میں صبح کے وقت بارہ رکعت پڑھنے کے باے میں جو توجیہ آپ نے پیش کی ہے۔ یہ محل نظر ہے۔ کیونکہ یہ امر مسلمہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو گیارہ رکعت یا تیرہ رکعت سے زیادہ نماز نہیں پڑھتے تھے۔ وِتر بھی اس میں شامل ہوتے تھے۔ بایں صورت و تروں کو اس سے مستثنیٰ قرار دینا بلا دلیل ہے اور جہاں تک حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کی روایت کا تعلق ہے، سو بفرضِ صحت اہلِ علم نے اس کی مختلف توجیہات بیان کی ہیں۔ حضرت وکیع راویٔ حدیث کے فہم کے مطابق اس روایت کا تعلق اسی متعلقہ رات سے ہے جس میں یہ عوارض لاحق ہوئے۔ یعنی آدمی کو چاہیے کہ وِتر کا وقت ختم ہونے سے قبل ہی وتروں سے فارغ ہو جائے۔ اس تشریح سے امام شوکانی رحمہ اللہ کے استدلال کی بھی کمزوری ظاہر ہوتی ہے اور دوسری روایت سے بھی اس امر کی تائید ہوتی ہے: (( مَن اَدرَکَ الصُّبحَ وَ لَم یُوتِر، فَلَا وِترَ لَہٗ )) (اخرجہ الحاکم(۱؍۳۰۲) و عنہ البیہقی و قال صحیح علی شرط مسلم و وافقہ الذھبی) [2]
Flag Counter