Maktaba Wahhabi

721 - 829
4۔آج کل ایک ہی مسجد میں تین تین یا چار چار حفاظ تراویح پڑھاتے ہیں ۔ ان کا ایسا کرنا شریعت کی روشنی میں کیسا ہے ۔ کیونکہ سوائے ایک یا دو صاحبان کے بقایا کے پیچھے چار یا پانچ نمازی ہی ہوتے ہیں؟ یعنی اجتماعیت ختم ہو کر انفرادیت معلوم ہوتی ہے ؟ جواب: 1 بلا ریب (بلاشبہ) قرآن مجید حفظ کرنا ایک عظیم سعادت ہے جیسا کہ بعد از حفظ گیارہ ماہ تلاوت ترک کیے رکھنا بھی سخت ترین جرم ہے اور پھر صرف نمازِ تراویح میں سنا کر اپنے آپ کو فارغ سمجھ لینا بے معنی شے ہے، جو اس کی گیارہ ماہ کی سُستی و کاہلی کا نِعمُ البَدَل نہیں بن سکتا۔ بلکہ حفظ اس بات کا متقاضی ہے، کہ اہلِ قرآن کی عملی زندگی ہر شعبہ میں عام لوگوں سے ممتاز اور نمایاں ہو۔ 2۔متعدد صحیح احادیث میں ہر مومن مرد و زن کو قرآن مجید سے خصوصی تعلق اور تلاوت کی ترغیب دلائی گئی ہے، تاکہ خطا کار انسان دینی و دنیاوی سعادتوں سے بہرہ ور ہو سکے۔ سلف صالحین سے بکثرت اقوال و آثار ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے، کہ وہ نہایت قلیل مدت میں اختتام منزل کو پہنچ جاتے تھے۔ حضرت عبد اﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا: ((صُم کُلَّ شَھرٍ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ۔ وَ اقرَأ القُرآنَ فِی کُلِّ شَھرٍ)) [1] ’’ہر ماہ تین روزے رکھ! اور ہر ماہ قرآن ختم کر!‘‘ اور رمضان میں تو تلاوت کا مزید اہتمام ہونا چاہیے۔ چنانچہ ’’مشکوٰۃ‘‘ باب الاعتکاف میں حدیث ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان میں جبریل علیہ السلام سے قرآن مجید کا دَور کرتے تھے اور وفات کے سال دو دفعہ دَور کیا۔ علاوہ ازیں رمضان میں ’’قیام اللیل‘‘ کا زیادہ اہتمام ہوتا ہے اور اس کی ترغیب بھی زیادہ وارد ہے اور قیام قرآن مجید کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس لیے کوشش ہونی چاہیے کہ کم از کم ایک دفعہ رمضان میں قرآن ختم ہو جائے۔ جِدُّو جہد کے باوجود اگر ختم نہ بھی ہو سکے تو کوئی حرج نہیں۔ ﴿ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفسًا اِلَّا وُسعَھَا﴾ (البقرۃ:۲۸۶) 3۔اگر کوئی خود نہ پڑھ سکے تو سننے کی سعی کرے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کتاب اﷲ کی ایک آیت کی طرف کان لگائے اس کے لیے دوگنی نیکی لکھی جاتی ہے اور جو کتاب اﷲ کی ایک آیت پڑھے اس کے لیے قیامت کے دن نور ہو گا۔[2]
Flag Counter