Maktaba Wahhabi

76 - 829
ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اسلام کی تعبیر شد پریشاں خواب من ز کثرت تعبیر ہا کی آئینہ دار بن جاتی ہے۔ محدثین کی صاف شفاف، بے غبار اور بے آمیز عینک کوئی استعمال نہیں کرتا، جس میں ہر چیز اپنی صحیح اور اصلی شکل میں نظر آتی ہے۔ طبیب حاذق کی یہ حذاقت یا فقیہ کی یہ فقاہت ہی یا الگ الگ رنگ کی یہ عینکیں ہی افتراقِ امت کے المیے کا سب سے بڑا سبب ہے، اس لیے جب تک محدثین کے منہج و مسلک کو اختیار نہیں کیا جائے گا، اس افتراق کا سدِّ باب ممکن نہیں ہے۔ محدثین کرام رحمہم اللہ کو فقاہت سے عاری محض ایک عطار کہنا، اِسی طرح خلافِ واقعہ اور ان کی توہین ہے، جیسے نورالانوار اور اصول الشاشی وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ اور حضرت انس رضی اللہ عنہما جیسے صحابہ کو غیر فقیہ قرار دینا خلافِ واقعہ اور ان کی توہین ہے۔ا ور یہ دونوں ہی باتیں انکارِ حدیث کے چور دروازے ہیں۔ مذکورہ صحابہ کو غیر فقیہ قرار دینے سے مقصود بھی ان کی بیان کردہ روایات سے جان چھڑانا اور اپنے قیاس و رائے کو ترجیح دینا ہے۔اسی طرح محدثین کو عطار کہنے سے مقصود بھی ان کی جمع کردہ حدیثوں کے مقابلے میں فقہاء کی موشگافیوں کو اختیار کرنا ہے، حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ مذکورہ صحابی غیر فقیہ تھے، نہ محدثین کرام ہی فقاہت سے عاری تھے۔ان کی فقاہت تو ابواب بندی(تراجم) ہی سے واضح ہو جاتی ہے۔ بالخصوص امام بخاری رحمہ اللہ کی فقاہت تو ان کے ایک ایک ترجمۃ الباب سے نمایاں ہے۔ اِسی لیے کہا جاتا ہے، (( فِقْہُ الْبُخَارِیِّ فِی تَرَاجِمِہ)) ’’ امام بخاری کی فقاہت ان کے تراجم میں ہے۔‘‘ تاریخ ِ اسلام کے ایسے بے مثال فقیہ کو محض عطار کہنا، ایک ایسی شوخ چشمانہ جسارت ہے جس کا حوصلہ ایسے ہی لوگ کر سکتے ہیں جن کے دلوں میں حدیث کی عظمت کے بجائے فقیہانہ قیل و قال کا احترام زیادہ ہے۔ سبحٰنک ھذا بھتان عظیم بہرحال بات ہو رہی تھی محدثین کرام کے جمع و تطبیق کے اصولوں کی۔ اگر ان اصولوں کو ان مسائل میں بھی اختیار کر لیا جائے جو فریقین کے درمیان ما بہ النزاع ہیں، تو بہت سے نزاعات کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اور اگر محدثین کی مذکورہ تینوں امتیازی خصوصیات ہی کو اپنا لیا جائے، جن کی وضاحت کی گئی ہے تو بیشتر اختلافات کا خاتمہ ممکن ہے۔ اختلافات کی بنیاد، حدیث کے بارے میں نقطہ نظر کا فرق ہی ہے۔ جب تک نقطہ نظر کا یہ فرق ختم نہیں ہو گا، اور حدیث کی عظمت کو اس طرح تسلیم نہیں کیا جائے گا جس طرح کہ اس کا حق ہے، اور احادیث ِ صحیحہ کو کسی بھی عنوان، حیلے یا وضعی اصولوں سے ردّ کرنے کا طریقہ نہیں چھوڑ ا جائے گا، جن کی بابت
Flag Counter