Maktaba Wahhabi

78 - 829
جُمِعَتْ لَبَلَغَتْ إِلٰی مُجَلَّدَاتٍ ضِخَامٍ)) [1] ’’انکے صرف وہ متفرق فتاویٰ ہی جو مختلف شہروں میں پھیلے ہوئے تھے، حیطۂ شمار سے باہر ہیں۔ میرے خیال کے مطابق اگر وہ جمع کیے جاتے تو کئی ضخیم جلدیں بنتیں۔‘‘ میاں صاحب رحمہ اللہ کی وفات کے بعد یہ احساس ہوا، تو پھر اس کی طرف کچھ توجہ دی گئی، اور انھیں جمع اور مرتب کرکے فتاویٰ نذیریہ کے نام سے دو جلدوں میں دہلی سے شائع کیا گیا، جو بعد میں حضرت الاستاذ مولانا محمد عطاء اللہ حنیف رحمہ اللہ کی مساعی کے نتیجے میں اہل حدیث اکادمی لاہور کی طرف سے دوبارہ تین جلدوں میں شائع ہوا۔ لیکن یہ شائع شدہ فتوے بہت قلیل حصہ ہیں، بہ نسبت ان فتووں کے جو انھوں نے تحریر فرمائے۔ اسی طرح دوسرے علمائے اہل حدیث کی علمی کاوشوں اور فتووں کا حشر ہوا، ان کا ریکارڈ رکھا گیا نہ ان کی وفات کے بعد انھیں جمع کرنے کی کوئی کوشش کی گئی، نتیجتاً بہت سی علمی و قیمتی تحریرات و دستاویزات دست برد زمانہ کی نذر ہو گئیں۔ ہمارے (ماضی قریب) کے اکابر علماء میں بھی اگرچہ متعدد علماء فتویٰ نویسی کے میدان میں نمایاں رہے، لیکن ان میں دو شخصیتیں نہایت ممتاز اور سرفہرست ہیں: ایک صاحب مرعاۃ المفاتیح مولانا عبید اللہ رحمانی مبارکپوری (متوفی۱۹۹۰ء) اور دوسرے مجتہد العصر حافظ عبداللہ محدث روپڑی(متوفی ۲۰ اگست ۱۹۶۴ء); تقسیم ملک کے بعد اوّل الذکر بھارت ہی میں مقیم رہے، جب کہ ثانی الذکر روپڑ(انبالہ ضلع، مشرقی پنجاب) سے لاہور آگئے۔ یہ دونوں ہی یگانہ عصر شخصیتیں تھیں، علم وعمل کے بحر بیکراں ، مجتہدانہ ذوق و صلاحیت سے بہرہ ور اور تحقیق و تدقیق کے ذروۂ علیا پر فائز۔ بنا بریں دونوں ہی عوام و خواص کے مرجع اور تحقیق و افتاء کی مسند کے صدر نشین رہے۔ حضرت محدث روپڑی کے فتاویٰ ان کی وفات کے بعد ان کے شاگردِ رشید مولانا ابوالسلام محمد صدیق(سرگودھا) رحمہ اللہ نے مرتب کرکے ’’فتاویٰ اہل حدیث‘‘ کے نام سے شائع کردیے تھے، جس سے اہل علم و تحقیق خوب استفادہ کرتے ہیں۔ اور اب محدث مبارکپوری کے فتاویٰ اور تحقیقی مقالات بھی جہاں تک مل سکے یا مرتب ہو سکے ، دو جلدوں میں شائع ہو گئے ہیں، باقی کی تلاش اور ترتیب کا کام جاری ہے۔ اللہ کرے وہ بھی جلد منظر عام پر آجائیں تاکہ یہ بیش قیمت علمی ورثہ بھی محفوظ ہو جائے۔ اسی طرح استاذ الاساتذہ حضرت حافظ عبداللہ غازی پوری رحمہ اللہ کے فتووں کا ایک مجموعہ مولانا عبدالرحمن مبارکپوری نے جمع و مرتب کیا تھا لیکن ابھی تک غیر مطبوعہ تھا، الحمد للہ وہ بھی پوری ایک صدی کے بعد زیور طباعت سے
Flag Counter