Maktaba Wahhabi

781 - 829
لیکن امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر انقطاع کے حکم کے علاوہ عکرمہ بن ابراہیم راوی کو ضعیف قرار دیا ہے۔ اسی بناء پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((ھٰذَا الحَدِیثُ لَا یَصِحُّ، لِأَنَّہٗ مُنقَطِعٌ : وَ فِی رُوَاتِہٖ مَن لَا یُحتَجُّ بِہ)) [1] انہی دلائل اور دیگر بعض کے پیشِ نظر میں نے اپنے بعض فتووں میں لفظ احتیاط کا استعمال کیا ہے۔ ورنہ یہ بات تو بدیہی ہے کہ قصر کا تعلق سفر سے ہے لیکن یہاں جو شییٔ محلِ تردّد ہے وہ یہ ہے کہ بایں صورت اس شخص پر لفظ مسافر کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں؟ کیونکہ وہ ایک ایسے مقام پر پہنچ چکا ہے جہاں بعض کے نزدیک مسافر کے بجائے مقیم کہلانے کا زیادہ حق دار ہے اس بناء پر ان کے نزدیک اسے پوری نماز پڑھنی چاہیے اور جہاں تک دورانِ سفر قصر کا جواز ہے تو بلا ریب قصر درست ہے۔ منقولہ جائیداد گاڑی وغیرہ کا اعتبار سلف سے ثابت نہیں ہے اور آغازِ سفر کے بارے میں اصل یہ ہے کہ جب انسان محسوس کرے کہ اب وہ مسافر بن گیا ہے تو قصر شروع کردے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ وغیرہ کے مسلک کے مطابق قصر کے لیے سفر کی کوئی حد بندی نہیں۔ صرف عرف ہی کافی ہے، اور امام ابن حزم رحمہ اللہ صرف ایک میل پر قصر کے قائل ہیں جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے مکہ کا قصد کیا تو ذوالحلیفہ میں قصر کی تھی۔ اس کی مسافت میں لوگوں کے مختلف اقوال ہیں بعض نے تین میل ذکر کیا ہے۔ دوسری طرف حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین میل یا تین فرسخ(۹میل) بیان فرمایا۔ یہاں بطورِ احتیاط بعض اہل حدیث کا مسلک ہے کہ اگر کسی نے نو میل سفر کرنا ہو تو وہ قصر کر سکتا ہے کم میں نہیں۔ تین کا عدد بھی نو کے اندر داخل ہے جب کہ تین کو لینے کی صورت میں نو کا عدد چھوٹ جاتاہے جو درست نہیں۔ الحاصل: مسافر جب تک سفر میں کسی جگہ اقامت کا ارادہ نہ کرے تو بلا تحدید وہ قصر کر سکتا ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں: ((ثُمَّ اَجمَعَ أَھلُ العِلمِ عَلٰی أَنَّ لِلمُسَافِرِ أَن یَقصُرَ مَا لَم یَجمَع إِقَامَۃً ، وَ إِن أَتٰی عَلَیہِ سِنُونَ)) [2] یعنی سب اہلِ علم کا اس پر اجماع ہے کہ مسافر جب تک اقامت کی نیت نہ کرے اگرچہ کئی سال گزر جائیں اسے قصر کی اجازت ہے۔
Flag Counter