Maktaba Wahhabi

822 - 829
اگر کوئی خطیب اپنے سامنے چوپائے باندھ کر جوہرِ خطابت دکھاتا رہے تو اس کا نام خطبہ نہیں رکھا جا سکتا کیونکہ فہم مفقود ہے۔ پھر حالتِ خطبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات میں وارد ہے کہ آواز بلند ہوجاتی، غصہ سخت ہو جاتا اور آنکھیں سرخ ہو جاتیں۔ گویا آپ فوجِ دشمن سے ڈرانے والے ہیں۔ یہ اس صورت میں ہوتا ہے جب خطیب کی توجہ کامرکز سامع فہیم ہو۔ نیز خطبہ جمعہ کو نماز پر قیاس کرنا بھی صحیح نہیں کہ جیسے نماز بغیر عربی کے نہیں پڑھی جاسکتی اسی طرح خطبہ بھی بلا عربی نہیں ہونا چاہیے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز میں مناجات مقصود ہے جب کہ خطبہ تذکیرکے لیے ہوتا ہے۔ صحیح مسلم میں حدیث ہے: (( إنَّ ھٰذِہِ الصَّلَاۃَ لَا یَصِحُّ فِیھَا مِن کَلَامِ النَّاسِ إِنَّمَا ھِیَ التَّسبِیحُ وَالتَّکبِیرُ وَ قِرَائَ ۃُ القُراٰنِ )) [1] یعنی ’’نماز میں بات چیت درست نہیں کیونکہ نما زصرف تسبیح، تکبیر اور قرأتِ قرآن کانام ہے۔‘‘ باقی رہا سلف صالحین کا عمل تو اس بارے میں عرض ہے کہ سلف میں مختلف قسم کے نظریے پائے جاتے ہیں۔ بعض عدمِ جواز کے قائل ہیں اور بعض بامر مجبوری جواز کے قائل ہیں اور اگر بالفرض عمل نہ بھی ہو تو بھی کوئی حرج نہیں۔ اس کے نظائر (مثالیں) موجود ہیں مثلاً: خیر القرون کی جملہ تصانیف بزبان عربی تھیں مدت بعد یہ سلسلہ مختلف زبانوں میں منتقل ہو گیا۔ حتی کہ کلامِ الٰہی کے تراجم و تفاسیر غیر عربی میں ہونے لگ گئے۔لہٰذا دلائل کا اصل محور کتاب و سنت ہے نہ کہ عمل کرنے والے کا عمل۔ سو اس کی وضاحت ہو چکی، مزید آنکہ اس کے کچھ عوامل بھی ہو سکتے ہیں۔مثلاً : 1۔ اسلامی سلطنت کے غلبہ کی وجہ سے لوگوں نے زیادہ تر عربی زبان ہی اختیار کر لی تھی یا کم از کم اگر نطق نہیں تو فہم ضرور رکھتے تھے۔ اس بناء پر سلف نے غیر عربی میں تالیفات کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی، یہی وجہ خطبہ جمعہ کی بھی ہو سکتی ہے۔ 2۔ اس زمانے میں امامِ جمعہ اور عید چونکہ امراء ہوتے تھے۔ ممکن ہے ان کے خیال میں بہتر یا ضروری خطبہ عربی میں ہو اور جس کے نزدیک مخاطب کا لحاظ ضروری ہے ان کو امارت (حکومت کرنے ) کا اتفاق نہ ہو سکا ہو۔ 3۔ عربی زبان کا تحفظ مقصود تھا کہ کہیں غیر زبانوں سے مل کر اپنا مقام نہ کھو جائے اور جب قواعد و ضوابط
Flag Counter