Maktaba Wahhabi

134 - 829
سَر پریا صرف پگڑی پر یا سَر اور پگڑی دونوں پر مسح کرنا۔ یہ تمام صورتیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔ اہلِ انصاف کی عادات سے بالا تر ہے، کہ بعض صورتوں کو لے لیا جائے اور بعض کو ترک کردیا جائے، بلکہ حق بات یہ ہے کہ صرف پگڑی پر مسح جائز ہے۔ سوال: گردن کا مسح جو لوگ وضومیں کرتے ہیں… کہاں سے دلیل لاتے ہیں؟ جواب: وضومیں گردن کے مسح کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعاً قابلِ اعتماد و استناد طریق سے کوئی شے ثابت نہیں۔ علامہ ابن ہمام حنفی نے اس سلسلہ میں وارد بعض روایات کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن وہ سخت ضعیف اور ناقابلِ حجت ہیں۔(فتح القدیر:۱؍۱۶۔۱۷) پھر حوالہ مذکور کے (ص:۲۳)پر ذکر کرتے ہیں: (( وَ قِیلَ: مَسحُ الرَّقَبَۃِ أَیضًا بِدعَۃٌ )) یعنی ’’یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس طرح گلے کا مسح بدعت ہے اسی طرح گردن کا مسح بھی بدعت ہے۔‘‘ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’گردن کے مسح کے بارے میں قطعاً کوئی صحیح حدیث وارد نہیں۔‘‘ (زاد المعاد:۱؍۱۹۵) مسئلہ ہذا کے بارے میں ایک روایت سنن ابوداؤد (رقم الحدیث:۱۳۲) میں ہے جس کے الفاظ یوں ہیں: ((قَالَ رَأَیتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یَمسَحُ رَأسَہٗ مَرَّۃً وَاحِدَۃً، حَتّٰی بَلَغَ القَذَالَ، وَ ھُوَ أَوَّلُ القَفَا۔ وَ قَالَ مُسَدَّدٌ: مَسَحَ رَأسَہٗ مِن مُقَدَّمِہٖ إِلٰی مُؤَخَّرِہٖ، حَتّٰی خَرَجَ یَدَیہِ مِن تَحتَ أُذُنَیہِ )) [1] یعنی میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دفعہ سَر کا مسح کرتے ہوئے دیکھا۔ حتی کہ آپ گدی کے ابتدائی حصہ تک پہنچ گئے۔ اور مسدد نے اپنی روایت میں بیان کیا کہ آپ نے سَر کے ابتدائی حصہ سے لے کر اخیر تک سَر کا مسح کیا حتی کہ دونوں ہاتھوں کو دونوں کانوں کے نیچے سے نکالا۔ یہ روایت السنن الکبری للبیہقی(۱؍۶۰)میں بھی ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ حدیث بالاتفاق ضعیف ہے۔ (المجموع:۱؍۵۰۰)اس کی سند میں لیث بن سلیم قرشی کوفی کے بارے میں امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ اس کی حدیث میں اضطراب ہے‘‘ اور ابن حبان رحمہ اللہ نے کہا :’’یہ سندوں کا قلب (سندوں کو الٹ پلٹ) کردیتا ہے۔ مراسیل کا رفع (مرسل روایات کو مرفوع)کرجاتا تھا ، اور ثقات کی طرف وہ احادیث منسوب کرتا تھا جو ان کی نہ ہوتی تھیں۔ یحییٰ قطان، ابن محمدی، ابن معین اور احمد نے اس کو
Flag Counter