Maktaba Wahhabi

135 - 829
چھوڑ دیا تھا۔ اور نووی رحمہ اللہ نے ’’تہذیب الأسماء‘‘ میں کہا ہے: ((إِتَّفَقَ العُلَمَائُ عَلٰی ضَعفِہٖ)) یعنی تمام علماء کا اس کے ضعف پر اتفاق ہے۔ نیز امام نووی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس میں راوی طلحہ کے باپ مصرّف اور دادا عمرو بن کعب بھی غیر معروف ہیں۔ ابوداؤد نے کہا: میں نے احمد سے سنا وہ فرماتے تھے: لوگوں نے کہا ابن عیینہ اس حدیث کا انکار کرتے ہوئے کہا کرتے تھے: ((أیش طلحۃ عن أبیہ عن جدہ)) یعنی وہ حدیث جس کو طلحہ نے ’’عن أبیہ عن جدہ‘‘ بیان کیا ہے قابلِ اعتماد شیٔ نہیں۔ صاحب ’’العون‘‘ فرماتے ہیں:’’یہ حدیث ضعیف ہونے کے باوجود گردن کے مسح کے استحباب کی دلیل نہیں بنتی، کیونکہ اس حدیث میں تو صرف یہ ہے کہ آپ شروع سے لے کر سَر کے اخیر تک یا گردن کے اخیر تک ’’عَلٰی اِختلاف الروایات‘‘ مسح کرتے تھے۔ اس بارے میں توکلام ہی نہیں۔ اصلی زیرِ بحث مسئلہ تو گردن کا مروّجہ مسح ہے، جو گردن پر اُلٹی انگلیوں سے سَر کے مسح کے بعد لوگ کرتے ہیں۔ گردن کے مسح کی یہ کیفیت کسی بھی صحیح یا حسن حدیث میںثابت نہیں،بلکہ وہ تمام روایات جو گردن کے مسح کے بارے میں وارد ہیں وہ سب ضعیف ہیں۔ جس طرح کہ بہت سارے اہل علم نے اس کی صراحت کی ہے۔ان کو قابلِ حجت سمجھنا قطعاً درست نہیں۔(۱؍۴۹۔۵۰) ابن الہمام رحمہ اللہ نے وائل بن حجر رحمہ اللہ سے بحوالہ ترمذی ایک روایت نقل کی ہے جس میں گردن کے مسح کی صراحت موجود ہے۔ بسیار (بہت زیادہ) تلاش کے باوجود مجھے یہ روایت سنن ترمذی میں مل نہ سکی۔ میں نے سمجھا کہ فقیہ موصوف سے نسبت میں غلطی ہوئی ہے ۔ بعد میں جب ’’عون المعبود‘‘ میں دیکھا تو انھوں نے واقعتا ان کے وہم کی صراحت کی ہے۔ فرماتے ہیں: (( فَھُوَ وَھمٌ مِنہُ لِأَنَّ الحَدِیثَ لَیسَ لَہٗ وُجُودٌ فِی التِّرمِذِیِ )) (۱؍۵۰) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اس بارے میں وارد اکثر روایات پر عدمِ اعتماد کا اظہار کیاہے۔ ملاحظہ ہو! التلخیص (۱؍۴۳۳) گردن کے مسح کے بارے میں ایک اور روایت بھی مشہور ہے: ((مَسحُ الرَّقبَۃِ أَمَانٌ مِنَ الغُلِّ)) یعنی گردن کا مسح کرنے والا روزِ جزاء طوق سے محفوظ رہے گا۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس کو من گھڑت قرار دیا ہے۔ ’’المجموع شرح المھذب‘‘(۱؍۴۶۵) اور حافظ عراقی نے بھی اس کو ’’تخریج الإحیاء‘‘(۱؍۱۹۵) میں ضعیف قرار دیا ہے۔ قدرے تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو! ’’سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ
Flag Counter