Maktaba Wahhabi

143 - 829
4۔ رابعاً: وہ شخص جس کے بدن پر نجاستِ حِسِّی ہو حُکمِی نہ ہو۔ (مذکورہ آیت کی تفسیر میں) قاضی شوکانی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ جس کے ہاں مشترک لفظ کا جملہ اس کا (کئی) معانی پر اطلاق جائز ہے۔ اس نے یہاں جمیع معانی پر محمول کیا ہے۔میری رائے میں مشترک (لفظ) چونکہ مجمل ہے لہٰذا بیان کے بغیر اس پر عمل نہ کیا جائے۔ ’’داؤد الظاہری‘‘ کے سوا علماء کا اجماع ہے کہ حدثِ اکبر میں مسِّ مصحف ناجائز ہے اور حدثِ اصغر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ، شعبی، ضحّاک، زید بن علی اور داؤ رحمہم اللہ جواز کے قائل ہیں انتہی۔’’مرعاۃ المفاتیح‘‘(۱؍۳۰۶) میں ہے: (( وَ قَالَ قَاسِمٌ وَ أَکثَرُ الفُقَھَائِ ، وَمِنھُمُ الأَئِمَّۃُ الأَربَعَۃُ: لَا یَجُوزُ. قُلتُ: القَولُ الرَّاجِحُ عِندَنَا ھُوَ قَولُ اَکثِرِ الفُقَھَائِ. وَ ھُوَ الَّذِی یَقتَضِیہِ تَعظِیمُ القُراٰنِ، وَ إِکرَامُہٗ۔ وَالمُتَبَادِرُ عَن لَفظِ’’طَاھِرٍ‘‘ فِی ھٰذَا الحَدِیثِ، وَ ھُوَ طَاھِرٌ عَنِ الحَدَثِ الأَصغَرِ: أَی المُتَوَضِّیُٔ وَ ھُوَ الفَردُ الکَامِلُ لِلطَّاھِرِ)) یعنی قاسم اور اکثر فقہاء جن میں ائمہ اربعہ بھی شامل ہیں ان کا مسلک ہے کہ حدثِ اصغر کی صورت میں مسِّ مصحف ناجائز ہے، اور میں کہتا ہوں کہ ہمارے نزدیک راجح اور مختار قول اکثر فقہاء کا ہے۔ قرآنِ کریم کی تعظیم و تکریم کا تقاضا بھی یہی ہے۔ اس حدیث میں لفظِ طاہر سے مراد متبادر الی الذہن (جو بات فوراً ذہن میں آتی ہے)حدثِ اصغر سے طہارت حاصل کرنا ہے۔ یعنی باوضوہونا، طاہر کا فرد کامل وہی ہے۔‘‘ بچوں کو بلا وضوقرآن مجید پکڑنے کی امام مالک رحمہ اللہ سے اجازت منقول ہے۔ چنانچہ بدایۃ المجتہد (جزء اوّل ص:۴۳) پر ہے: (( وَرَخَّصَ مَالِکٌ لِلصِّبیَانِ فِی مَسِّ الصُّحُفِ عَلٰی غَیرِ طُھرٍ۔ لِأَنَّھُم غَیرُ مُکَلَّفِینَ)) یعنی ’’امام مالک رحمہ اللہ نے بچوں کو مسِّ مصحف کی بلا وضوچھونے کی اجازت دی ہے اس لیے کہ وہ غیر مکلف ہیں۔‘‘ نیز حدیث میں ہے: ((رُفِعَ القَلَمُ عَن ثَلَاثٍ، وَ عَنِ الصَّبِیِّ حَتّٰی یَحتَلِمَ )) [1] اس سے معلوم ہوا کہ بچے طہارت کے مکلف نہیں ہیں۔ بلاوضوقرآن پکڑ سکتے ہیں۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جنابت میں قرآن مجید کی تلاوت ناجائز ہے، البتہ حَدثِ اصغر خروج ریح وغیرہ
Flag Counter