Maktaba Wahhabi

142 - 829
وَجہَین(دونوں وجوہ کا احتمال رکھتی)ہے۔ مانعین(منع کرنے والے) کا استدلال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس چٹھی سے ہے جو عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کو لکھ کر دی تھی جب کہ انھیں اہل یمن کی طرف بھیجا تھا۔ ’’دار قطنی‘‘ میں ہے : ((اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کَتَبَ اِلَی الیَمنِ کِتَابًا، وَ کَانَ فِیہِ:لَا یَمَسُّ القُرانَ إِلَّا طَاھِرٌ)) [1] ’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ یمن کو خط لکھا۔ اس میں مذکور تھا صرف طاہر انسان قرآن کو مَسّ کرے۔‘‘ حدیث ہذا سند کے لحاظ سے اگرچہ متکلم فیہ ہے لیکن حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((إِِنَّہٗ أَشبَہَ المُتَوَاتِرِ فِی مَجِیۂٖ لِتَلَقِّی النَّاسِ لَہٗ بِالقُبُولِ )) (یہ متواتر کے مشابہ ہے کیونکہ عوام میں اسے درجۂ قبول حاصل ہے ) یعقوب بن سفیان کا بیان ہے کہ اس سے زیادہ صحیح خط کا علم مجھے نہیں ہو سکا۔ کیونکہ اصحاب رسول اﷲ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ اسی کی طرف رجوع کرتے تھے اور اپنی آراء کو ترک کردیتے۔ نیز عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ اور زہری نے بھی اس خط کی صحت کی شہادت دی ہے۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ ’’نیل الأوطار‘‘(۱؍۲۳۶ )میں فرماتے ہیں: (( وَالحَدِیثُ یَدُلُّ عَلٰی أَنَّہٗ لَا یَجُوزُ مَسُّ المُصحَفِ إِلَّا مَن کَانَ طَاھِرًا )) یعنی حدیث ہذا اس بات پر دال ہے کہ قرآن کو صرف وہی شخص چھو سکتا ہے جو طاہر ہو۔ واضح ہو کہ شرع میں طہارت کے چار اطلاقات ہیں: 1۔ اوّلاً: مومن بمقابلہ کافر۔قرآن میں ہے: ﴿اِنَّمَاالمُشرِکُونَ نَجَسٌ﴾( مشرکین پلید ہیں) حدیث میں ہے: (( اَلمُؤمِنُ لَا یَنجُس)) ’’مومن نجس (پلید)نہیں ہوتا‘‘[2] 2۔ ثانیاً : حَدَثِ اکبر یعنی جنابت وغیرہ سے طہارت حاصل کرنا۔ قرآن میں ہے:﴿وَ اِن کُنتُم جُنُبًا فَاطَّھَّرُوا﴾ 3۔ ثالثًا: حدثِ اصغر، خروجِ ریح وغیرہ سے وضوکرنا۔ حدیث میں ہے: ((دَعھُمَا فَاِنِّی اَدخَلتُھُمَا طَاھِرَتَینِ)) [3]
Flag Counter