Maktaba Wahhabi

229 - 829
محل بحث میں نصوصِ صریحہ واضحہ کو ترک کرکے عمومات سے استناد لینا ماہرین کے قواعد وضوابط کے خلاف ہے اور بلاو جہ تاویلات کا دروازہ کھولنا ایک غلط انداز ہے۔ ہاں البتہ اقتضائی صورت میں اس کا کوئی حرج نہیں کہ اذان کا اطلاق تکبیر پر ہو۔ تاہم مقامِ گفتگو میں اس کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ شرع میں فجر کی مستقلاً دو اذانیں ہیں جبکہ دوسری طرف متعدد روایات میں پہلی اذان کی تصریح بھی موجود ہے۔ چنانچہ سبل السلام (۲؍۴۶) میں بحوالہ نسائی ہے: الصلاۃ خیر من النوم، الصلاۃ خیر من النوم فی الاذان الاولی من الصبح اس سے مطلق روایات مقید ہوجاتی ہیں۔ ابن رسلان نے کہا کہ اس روایت کو ابن خزیمہ نے صحیح کہا ہے۔ تثویب(الصلوۃ خیر من النوم) فجر کی پہلی اذان میں ہے کیونکہ یہ سونے والے کو بیدار کرنے کے لئے ہے۔ دوسری اذان نماز کے دخولِ وقت کا اعلان اور نماز کی طرف دعوت کے لئے ہے۔ اور نسائی کی سنن کبریٰ (اور صغریٰ) میں ابومحذورہ کا بیان ہے: ((کُنْتُ أُؤَذِّنُ لِرَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَکُنْتُ أَقُولُ فِی أَذَانِ الْفَجْرِ الْأَوَّلِ: حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ. الصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ. الصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ.)) [1] ابن حزم نے کہا کہ اس کی سند صحیح ہے۔ علامہ البانی نے بھی اس پر صحت کا حکم لگایا ہے اور صحیح ابی داود میں جملہ طرق اور شواہد کی بنا پر اس کو صحیح قرار دیا ہے یہ کتاب چندماہ قبل کویت سے پہلی مرتبہ طبع ہوئی ہے۔ بلا تحقیق حدیث ِہذا کو ضعیف قرار دینا درست نہیں۔ اس طرح سنن کبریٰ بیہقی میں ابومحذورہ کی حدیث میں ہے: انہ کان یثوب فی الاذان الاول من الصبح بامرہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ’’ابومحذورہ صبح کی پہلی اذان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے الصلاۃ خیر من النوم کہا کرتے تھے۔ مشکوٰۃ میں بحوالہ ابوادود الفاظ یوں ہیں: فإن کان صلاۃ الصبح قلت الصلاۃ خیر من النوم اگر صبح کی نماز ہو تو الصلاۃ خیر من النوم کہا کرو۔ حواشی مشکوٰۃ میں اس پر علامہ البانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ((وذلک فی الاذان الاول للصبح کما فی روایۃ اخری لابی داؤد )) ’’یہ کلمہ صبح کی پہلی اذان میں کہا جائے گا جس طرح کہ ابوداؤد کی دوسری روایت میں ہے۔‘‘ (حدیث رقم:۶۴۳)
Flag Counter