Maktaba Wahhabi

230 - 829
نیز حدیث ابومحذورہ میں ہے: ((أَنَّ النَّبِیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عَلَّمَہٗ فِی الاَذَانِ مِنَ الصُّبحِ، الصَّلَاۃُ خَیرٌ مِنَ النَّومِ )) [1] ’’نبی صلی الله علیہ وسلم نے ابومحذورہ کو تعلیم دی کہ صبح کی پہلی اذان میں الصلاۃ خیر من النوم کہا کرے۔‘‘ اور ابن عمر کی روایت میں ہے: ((کَانَ فِی الأَذَانِ الاَوَّلِ بَعدَ الفَلَاحِ ، اَلصَّلٰوۃُ خَیرٌ مِنَ النَّومِ مَرَّتَینِ )) [2] ’’پہلی اذان میں حی علی الفلاح کے بعد الصلاۃ خیر من النوم کہا جاتا تھا۔‘‘ مذکورہ جملہ دلائل میں اس امر کی تصریح ہے کہ الصلاۃخیرمن النوم صبح کی پہلی اذان میں کہا جائے۔ باقی رہا یہ مسئلہ کہ جہاں صبح کی پہلی اذان کا اہتمام نہ ہو، وہاں یہ کلمہ دوسری اذان میں کہا جائے، اس صورت میں عمومی احادیث پرعمل ہوگا اور یہ فعل ’’احداث فی الاذان‘‘ کے زمرہ میں داخل نہیں ہوگا اور کلمہ الصلاۃ خیر من النوم بھی اس بات کا متقاضی ہے۔ دونوں اذانوں میں قدرِ مشترک چونکہ صبح کی نماز کے لئے بیدار کرنا ہے سو وہ حاصل ہے اور اس لئے بھی کہ اصل دوسری اذان ہے پہلی کا اضافہ مخصوص اغراض کے پیش نظر ہوا۔ اسی اصلی ترتیب کی بنا پر امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں باب الاذان بعد الفجر کا عنوان پہلے قائم کیا ہے۔ پھر باب الاذان قبل الفجر کی تبویب ذکر کی ہے۔ یہ اس طرح سمجھیں کہ مسافر پر جمعہ نہیں، اگر وہ مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر پڑھنا چاہے تو اس کی اجازت ہے اور جمعہ فوت ہونے کی صور ت میں ظہر بہرصورت پڑھنی پڑتی ہے، اس طرح کلمہ الصلاۃ خیر النوم پہلی اذان کے عدم کی صورت میں دوسری اذان کی طرف منتقل ہوجائے گا ...تاہم جن اصحابِ علم کا نکتہ نظریہ ہے کہ یہ حکم پہلی اذان کے ساتھ ہی مخصوص ہے خواہ فجر کی ایک اذان ہی کہی جائے ۔مذکورہ علل اور وجوہات کی بنا پر میرے نزدیک یہ مسلک مرجوح ہے۔ آخر میں محترم ڈاکٹر صاحب کو میرا مشورہ ہے جب کسی مسئلہ میں بحث کی صورت میں طوالت نظر آئے تو بذاتِ خود موضوع سے متعلقہ کتابوں کا مطالعہ کریں۔ اوراشکالات کی صورت میں پختہ کار علما سے رہنمائی حاصل کرنی چاہئے۔ سوال: کیا کوئی شخص بیت الخلاسے نکل کر بغیر وضو اذان دے سکتا ہے۔ قرآن و سنت سے رہنمائی فرمائیے۔
Flag Counter