Maktaba Wahhabi

325 - 829
کہ وہ امام کے پیچھے کھڑا ہو اور لفظ امام (آگے چلنے والا) کا تقاضا یہ تھا، کہ امام مقتدی سے آگے ہو۔ مگر دونوں لفظوں کے تقاضوں سے قطع نظر کرتے ہوئے شریعت نے لفظِ جماعت کے تقاضے کو ملحوظ رکھا ہے اور اکیلے مقتدی کو امام کے ساتھ کھڑا ہونے کا حکم دیا ہے۔ اس لیے صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھنا لفظِ جماعت کے معنی و رُوح کے منافی ہے۔ ہاں عورت کو شرعی طور پر اس سے اس لیے مستثنیٰ رکھا گیا ہے، کہ ایک تو اس پر نماز باجماعت سِرے سے فرض ہی نہیں۔ دوسرا یہ کہ وہ مرد کے ساتھ شرعی طور پر کھڑی نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ یہ چیز دونوں کی نماز میں خلل انداز ہوسکتی تھی۔ ہاں اگر عورتوں کی صف موجود ہو اور اس میں مزید گنجائش نہ ہو، تو بعد میں آنے والی عورت کے لیے ہمارے خیال میں مناسب یہی ہے، کہ وہ بھی کسی عورت کو پیچھے کھینچ کر صف بناء لے۔ تاکہ لفظِ جماعت ان پر صادق آسکے۔ اسی طرح حدیث (ابن ماجہ حاکم وغیرہ) میں ستونوں کے درمیان صفیں بنانے سے منع کیا گیاہے۔ اس کی وجہ بھی یہی معلوم ہوتی ہے، کہ اس سے جماعت کی جمعیت پارہ پارہ ہوتی ہے۔ (۲)شیخ البانی رحمہ اللہ اور ان کے ہم خیال حضرات کہتے ہیں ’’چوں کہ اگلی صف میں سے کسی کو کھینچنے کے بارے میں کوئی صحیح حدیث وارد نہیں ہوئی۔ لہٰذا راجح امر یہ ہے، کہ بعد میں آنے والا شخص صف کے پیچھے اکیلا ہی نماز پڑھ لے۔‘‘ اس سلسلہ میں قابلِ غوربات یہ ہے کہ جب صف کے پیچھے تنہا شخص کی نماز کا صحیح نہ ہونا۔ بلکہ اس کے اعادہ کا ضروری ہونا علی الإطلاق ثابت ہو چکا ہے، تو پھر ایسے شخص کے بارے میں تین ہی صورتیں ہو سکتی ہیں: ۱۔ یا تو ہم یہ کہیں کہ اگلی صف میں سے کسی کو کھینچ لے۔ ۲۔ صف کے پیچھے اکیلا ہی نماز پڑھ لے اور پھر اس کا اعادہ بھی کرے۔ [1] ۳۔ اور یا پھر یہ کہیں کہ وہ اکیلا ہی نماز پڑھ لے اورا س کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ صف کے پیچھے اکیلے شخص کی نماز کے صحیح نہ ہونے کا حکم اس شخص کے ساتھ خاص ہے، جو اگلی صفوں میں گنجائش ہونے کے باوجود پیچھے اکیلا ہی کھڑا ہو جائے۔ تیسری صورت ہمارے خیال میں تقیید بلا مُقَید اور تخصیص بلا مُخَصِّص کے ذیل میں آتی ہے۔ یعنی کسی عام اور مطلق حکم کو خواہ مخواہ مخصوص اور مقید قرار دے دینا۔ دوسری صورت ویسے ہی غیر معقول معلوم ہوتی ہے۔ آخر
Flag Counter