Maktaba Wahhabi

326 - 829
بعد میں آنے والے کا کیا قصور ہے، کہ اسے ایک نماز دو دفعہ پڑھنے کی تکلیف دی جائے! پہلی صورت سب سے زیادہ معقول اور راجح معلوم ہوتی ہے۔ کیوں کہ ایک تو اس کی نظیر موجود ہے اور وہ یہ کہ امام کے ساتھ جب ایک ہی مقتدی کھڑا ہو اور دوسرا مقتدی آجائے تو اسے پہلے مقتدی کو پیچھے کھینچنا ہی پڑتا ہے۔ دوسرا اس کے بارے میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور وابصۃ بن معبد رضی اللہ عنہ کی دو تین ضعیف حدیثیں (سنن بیہقی اور مسند ابی یعلی وغیرہ میں) اور ایک مقاتل بن حیان کی مرسل حدیث (مراسیل ابی داؤد میں) موجود ہے۔ مرسل حدیث اگرچہ محدثین کے نزدیک ضعیف ہی کی ایک قسم ہے۔ لیکن عام ضعیف حدیث اور مرسل میں یہ فرق ہے، کہ ضعیف حدیث کا حجت نہ ہونا متفق علیہ ہے۔ جب کہ مرسل کے بارے میں اختلاف ہے، حنفی اور مالکی اس کی حجیت کے قائل ہیں۔ نیز ’’رسالۃ ابی دأود إلی اہل مکہ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’مسند حدیث کی عدمِ موجودگی میں مرسل حجت ہے۔ تاہم اس کی حجیت میں صحیح حدیث والی قوت نہیں ہوگی۔‘‘گویا امام ابوداؤد رحمہ اللہ کے نزدیک اگر مسند حدیث کسی مسئلہ میں موجود نہ ہو، تو مرسل روایت حسن درجے کی حدیث کا کام دے سکتی ہے۔ (۳)شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اگلی صف میں سے کسی کو کھینچنے کا فتویٰ دینا ’’تَشرِیعٌ بِدُونِ نَصٍّ صَحِیحٍ‘‘ہے۔‘‘ یعنی اپنی طرف سے شریعت گھڑنے کے مترادف ہے۔ ہمارے خیال میں یہ فتویٰ ’’تَشرِیعٌ بِدُونِ نَصٍّ صَحِیحٍ‘‘ کے زُمرے میں نہیں آتا۔ بلکہ ’’قِیَاسٌ صَحِیحٌ‘‘ کے زُمرے میں آتا ہے۔ نیز اس کے لیے حسن درجے کی نص بھی موجود ہے۔ جیسا کہ تفصیل اوپر بیان کی جاچکی ہے۔ (۴) بعض حضرات کا خیال ہے کہ ’’اگلی صف میں سے کسی کو کھینچنے سے دو قباحتیں لازم آتی ہیں۔ ایک تو ساری صف ہلچل اور پریشانی میں مبتلا ہوجاتی ہے اور دوسرا یہ کہ کھینچنے والے شخص کو خواہ مخواہ پہلی صف کے ثواب سے محروم کر دیا جاتا ہے۔‘‘ پہلی ’’قباحت‘‘ کے بارے میں یہ پیشِ نظر رہنا چاہیے، کہ نماز کی کسی ضرورت کے تحت صف کے ہلچل میں مبتلا ہونے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں۔ کیوں کہ اس کی نظیر موجود ہے اور وہ یہ کہ اگر امام کا وضو ٹوٹ جائے اور وہ کسی مقتدی کو امام بناء کر وضو کرنے کے لیے چلا جائے، تو ظاہر ہے کہ اس صورت میں پہلی صف والوں کو تھوڑی بہت حرکت کر کے خالی جگہ کو پُر کرنا ہی ہوگا۔ بلکہ راقم کے خیال میں ان کو ((مَن وَصَلَ
Flag Counter