Maktaba Wahhabi

343 - 829
یعنی ’’حضرت انس ایک مسجد میں آئے وہاں جماعت ہو چکی تھی۔ انھوں نے اذان اور اقامت کہہ کر باجماعت نماز پڑھی۔‘‘ باقی نماز کی جہری یا سِری قرأت کا انحصار موجود نماز کی کیفیت پر موقوف ہے۔ ظاہر ہے کہ جہری نماز میں قرأت بآواز بلند ہو گی اور سری میں آہستہ۔ سوال: مفترض کی مفترض کے ساتھ مسجد واحد میں بتکرارِ جماعت جائز ہے یا نہیں؟ جواب: اہل حدیث کی اکثر مساجد میں دیکھا گیا ہے، کہ ایک ہی نماز کی متعدد جماعتیں قائم ہوتی ہیں اور جماعت کرانے والوں کی اکثریت ان لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے جو اپنے ذاتی شغل کو دعوت الی اﷲ(اذان) سے مقدم گردانتے ہیں۔ کبھی تو وہ چند گاہکوں کی امید میں دکان پر بیٹھے رہتے ہیں اور کبھی ٹی وی ڈرامے یا میچ پر نظریں جمائے رکھتے ہیں اور کبھی انھیں دوستوں کی محفل سے نماز کی خاطر اٹھنا گراں معلوم ہوتا ہے، اور وہ یہ سوچ کر کہ خیر ہے، دوسری یا تیسری جماعت کرالیں گے۔ پہلی یعنی حقیقی جماعت میں شمولیت سے محروم رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کا سہارا یہ روایت بنی ہوئی ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو ظہر کی نماز پڑھا چکے تھے، کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اے فلاں! تجھے جماعت سے کس چیز نے روکے رکھا؟ تو اس نے کوئی وجہ بیان کی۔ راوی بیان کرتا ہے، کہ اس نے نماز پڑھنی شروع کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی ہے، جو اس پر صدقہ کرے؟ اس طرح کہ اس کے ساتھ نماز ادا کرے۔ تو ایک آدمی اس کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔(رواہ احمد بحوالہ سبل السلام:۳؍۲) [1] اور اس کی تائید میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کا فعل پیش کیا جاتا ہے۔ (( اَنَّہٗ دَخَلَ مَسجِدًا قَد صَلَّوا فِیہ،ِ فَأَمَرَ رَجُلًا فَاَذَّنَ بِھِم، وَ أَقَامَ فَصَلّٰی بِھِم جَمَاعَۃً)) ( رواہ البیہقی بحوالہ تمام المنّۃ علی فقہ السنّۃ) ’’ وہ مسجد میں داخل ہوئے جہاں نمازی نماز پڑھ چکے تھے تو انھوں نے ایک آدمی کو اذان دینے کا حکم دیا تو اس نے اذان اور تکبیر کہی پھر انھوں نے ان کو جماعت کرائی۔‘‘ بعض روایات میں ہے کہ آپ قریباً بیس آدمیوں کے ہمراہ بنو سلمہ سے گزرے جہاں نمازی جماعت کے ساتھ نماز ادا کر چکے تھے۔ تو آپ نے وہاں اذان کہلوائی اور جماعت کرائی۔
Flag Counter