Maktaba Wahhabi

346 - 829
مَرَّتَینِ )) [1] ’’ ہم نے یہ بات خوب یاد رکھی ہے کہ ان میں سے جو آدمی جماعت سے رہ جاتے، وہ آپ کے علم کے باوجود الگ الگ نماز ادا کرتے۔ حالانکہ انھیں جماعت کرانے پر قدرت حاصل تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے ایک مسجد میں دو مرتبہ جماعت کرانے کو مکروہ سمجھا تھا۔‘‘ چنانچہ اس مسئلہ پر امام شافعی رحمہ اللہ کا اپنا فتویٰ بھی پڑھنے کے قابل ہے فرماتے ہیں :کہ ’’اگر کسی مسجد میں امام راتب ہو اور کسی آدمی یا چند آدمیوں کی نماز باجماعت فوت ہو جائے تو انھیں الگ الگ پڑھنی چاہیے۔ مجھے یہ بات پسند نہیں کہ وہ جماعت کرائیں۔ اگر وہ جماعت کرائیں تو نماز ہو جائے گی۔… میں توصرف اسی بناء پر دوبارہ جماعت کو پسند نہیں کرتا کہ ہمارے اسلاف کرام(صحابہ و تابعین) رحمہما اللہ نے ایسا نہیں کیا بلکہ بعض نے اسے ناپسند کیا ہے۔‘‘ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں: کہ میرے خیال میں ان کے مکروہ سمجھنے کی وجہ یہ ہے، کہ مسلمانوں کی جمعیت پارہ پارہ ہو جائے گی اور کوئی ایک یا کئی آدمی جان بوجھ کر جماعت سے پیچھے رہ کر دوسرے امام کے پیچھے نماز ادا کریں گے، تو اس طرح مسلمانوں کا کلمہ متفرق ہو جائے گا اور یہ مکروہ ہے اور میں دوبارہ جماعت کرانے کو اس مسجد میں مکروہ سمجھتا ہوں جہاں امام راتب اور موذّن موجود ہو۔ لیکن جو مسجد راستے پر یا کسی کونے پر ہو اور وہاں امام اور مؤذن متعین نہ ہو اور مسافر و غیر مسافر وہاں نماز ادا کرتے ہوں یا سَستا لیتے ہوں، تو وہاں دوبارہ جماعت مکروہ نہیں۔ (انتہی ملخصًا) [2] امام شافعی اور جمہور علمائے اسلام کے موقف کے حق میں علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (( وَ بِالجُملَۃِ فَالجَمھُورُ عَلٰی کَرَاھَۃِ إِعَادَۃِ الجَمَاعَۃِ فِی المَسجِدِ بِالشَّرطِ السَّابِقِ۔ وَ ھُوَ الحَقُّ، وَ لَا یُعَارِضُ ھٰذَا الحَدِیثُ المَشھُورُ ( أَلَا رَجُلٌ یَّتَصَدَّقُ عَلٰی ھٰذَا فَیُصَلِّی مَعَہٗ) ) [3] ’’خلاصہ یہ ہے کہ ائمہ دین کی اکثریت شرطِ سابق کے ساتھ ایک مسجد میں ( ایک نماز ) کی دوبارہ جماعت کو مکروہ کہتے ہیں اور یہی حق ہے اور مشہور حدیث جس میں ذکر ہے کہ کوئی کھڑا ہو اور اس پر صدقہ کرے کہ اس کے ساتھ نماز ادا کرے۔ اس فتوے کے معارض نہیں ہے۔‘‘
Flag Counter