Maktaba Wahhabi

436 - 829
تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث ((صلُّوْا کَمَا رَأَیْتُمُوْنِیْ)) [1] کے پیش نظر اجازتِ ھذا مقتدی کو بھی شامل ہے۔ پھر سنن ابن ماجہ کی روایت میں ماموم کے جوازِ قراء ت پر نص صریحًا موجود ہے۔ پوری روایت بسندہٖ ملاحظہ فرمائیں: ((حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیٰی حَدّثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ عَنْ مُسْھِرٍ عَنْ یَزِیْدَ الْفَقِیْرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ کُنَّا نَقْرَأُ فِی الظُّھْرِ وَ الْعَصْرِ خَلْفَ الاِمَامِ فِی الرَّکْعَتَیْنِ الاُوْلَیَیْنِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ وَ سُوْرَۃٍ وَّ فِی الاُخْرَیَیْنِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ (ابن ماجہ،ص:۶۱) [2] ’’کہ ہم ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں امام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ اور (اس کے ساتھ)سورۃ (ملا کر) پڑھتے تھے ، جب کہ آخری دو رکعتوں میں (صرف) فاتحہ الکتاب۔‘‘ باقی رہی سنن نسائی کی وہ روایت کا جس کا حوالہ مولوی صاحب مذکور دیتے ہیں ، تو امام نووی نے شرح مسلم میں اس کا جواب یوں دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو مطلق قراء ت سے نہیں روکا تھا بلکہ صرف آواز بلند کرنے سے منع فرمایا تھا… الفاظ یوں ہیں: ((مَعْنٰی ھٰذَا الْکَلَامِ الاِنْکَارُ عَلَیْہِ وَ الْاِنْکَارُ فِیْ جَھْرِہٖ اَوْ رَفْعِ صَوْتِہٖ بِحَیْثُ اَسْمَعُ غَیْرَہٗ لَا عَنْ اَصْلِ الْقِرَائَ ۃِ بَلْ فِیْہِ اَنَّھُمْ کَانُوْا یَقْرَئُ وْنَ بِالسُّوْرَۃِ فِی الصَّلٰوۃِ السِّرِّیَّۃِ (جلد اوّل،ص:۱۷۲) یعنی ’’اس کلام کا مفہوم یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بآوازِ بلند قراء ت سے روکا تھا، کیونکہ اس نے آواز دوسرے کو سنائی، نہ کہ اصلی قراء ت سے انکار مقصود ہے! … نفسِ حدیث میں تو یہ مسئلہ موجود ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سِرّی نماز میں سورۃ پڑھتے تھے۔‘‘ صاحب التعلیقات السلفیۃ(بھوجیانی) نے بھی قریباً یہی بات دہرائی ہے کوئی نئی بات نہیں کہی۔ اسی بنا پر امام نووی رحمہ اللہ نے اس روایت پر صحیح مسلم کے حاشیہ میں بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے: ((بَابُ نَھْیِ الْمَأْمُوْمِ عَنْ جَھَرِہِ بِالْقِرَائَۃِ خَلْفَ اِمَامِہٖ)) یعنی ’’ماموم کے لیے امام کے پیچھے جہری قراء ت کرنا منع ہے۔‘‘ اور امام ابوداؤد نے اپنی سنن میں یوں
Flag Counter