Maktaba Wahhabi

438 - 829
سے خیر کے سوا کچھ نہیں تھا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے احساس ہو رہا تھا کہ ایک شخص نے مجھ پر قراء ت خلط ملط کردی ہے۔[1] ایک دوسری روایت جو جزء القراء ۃ للبخاری، مسند احمد اور السّراج میں بسند حسن مروی ہے، میں ہے کہ: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں قراء ت بآوازِ بلند کرتے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((خَلَطْتُّمْ عَلَیَّ الْقُرْاٰنَ)) تم نے مجھ پر قرآن کو خلط ملط کردیا ہے۔‘‘ پھر محدث موصوف صفحہ ۹۶ کے حاشیہ پر رقمطراز ہیں کہ سرّی نماز میں قراء ت خلف الامام کی مشروعیت کے قائل، قدیم قول کے مطابق امام شافعی ہیں اور امام ابوحنیفہ کے شاگرد امام محمد سے بھی ایک قول اسی کے موافق ہے۔ ملا علی قاری اور بعض حنفی شیوخ نے بھی اس مسلک کو پسند کیا ہے۔ اور یہی قول امام زہری ، مالک، ابن المبارک ، احمد بن حنبل اور محدثین کی ایک جماعت وغیرہ کا ہے۔( رحمہم اللہ تعالیٰ) اب آپ سوالات کا جواب بالترتیب لاحظہ فرمائیں: ۱۔ لفظ ((خَالَجَنِیْھَا)) سے ظاہر ہے کہ اس نے سورۃ کا کچھ حصہ بلند آواز سے پڑھا ہوگا۔ امام خطابی ’’معالم السنن‘‘ میں فرماتے ہیں: (( وَ اِنَّمَا اَنْکَرَ عَلَیْہِ مُجَاذَبَتَہٗ اِیَّاہُ فِی قِرَائَ ۃِ السُّوْرَۃِ حِیْنَ تَدَاخَلَتِ الْقِرَآئَ تَانِ)) ۲۔ جہاں تک سورۃ فاتحہ کا تعلق ہے، اس کے بارے میں امام خطابی فرماتے ہیں: ((فَاَمَّا قِرَآئَ ۃُ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ فَاِنَّہٗ مَأُمُوْرٌ بِھَا عَلٰی کُلِّ حَالٍ اِنْ اَمْکَنَہٗ اَنْ یَّقْرَأَ فِی السَّکْتَۃِ فَعَلَ وَ اِلَّا قَرَأَ مَعَہٗ لَا مَحَالَۃَ )) ’’جہاں تک سورۃ الفاتحہ کا تعلق ہے، تو وہ ہر حال میں اس کے پڑھنے کا پابند ہے ، اگر ممکن ہو تو خاموشی کے وقفہ میں پڑھے ورنہ ساتھ ساتھ! ‘‘ ۳۔ سورۃ الفاتحہ نہیں چھوڑ سکتا۔ ۴۔ ظاہر ہے کہ باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سورت سِرّی پڑھی ہو گی۔ اس لیے تنبیہ کی ضرورت صرف اس ایک کو سمجھی گئی، جس نے سرِّی کی مخالفت کی۔ ۵۔ ممکن ہے صحابی کی مراد دونوں ہوں۔ جہر میں چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی مخالفت تھی اس لیے اس سے منع فرمادیا۔ ۶۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک آدھ آیت اونچی سناتے تھے۔ لیکن اس نے زیادہ قراء ت کی ہوگی نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
Flag Counter