Maktaba Wahhabi

470 - 829
بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی رفع الیدین کرتے تھے اور کبھی نہیں کرتے تھے اور بعض کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں اسے ترک کردیا تھا؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمادیں۔ جواب: زیرِبحث مسئلہ سے غالباً سائل کا مقصود قبل از رکوع اور بعد از رکوع رفع الیدین ہے۔ اسی تقدیر پر ہم آئندہ موضوع پر بحث کریں گے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا ثبوت غالباً حدیث کی ہر کتاب میں موجود ہے۔ ائمہ محدثین میں سے کوئی ایک بھی مؤلف ایسا نہیں پایا جاتا ، جس نے اس کے نسخ کی تبویب (باب) قائم کیا ہو۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ان کے نزدیک دعویٰ نسخ کی کوئی حقیقت نہیں۔ اسی بناء پر مولانا عبدالحی حنفی فرماتے ہیں: ((اِنَّ ثُبُوتَہ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أَکثَر،ُ وَ أَرجَحُ۔ وَ أَمَّا دَعوٰی نَسخِہِ، فَلَیسَت بِمُبَرھَنٍ عَلَیھَا بِمَا یَشفِی العَلِیلَ ، وَ یُروِی الغَلِیلَ )) [1] یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رفع الیدین کرنے کا بہت کافی اور نہایت عمدہ ثبوت ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ رفع الیدین منسوخ ہے ان کا قول بے دلیل ہے۔ اور حضرت شاہ ولی اﷲ صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ جب رکوع کرنے کا ارادہ کرے تو رفع الیدین کرے، اور جب رکوع سے سر اٹھائے اس وقت بھی رفع الیدین کرے۔ میں رفع الیدین کرنے والوں کو نہ کرنے والوں سے اچھا سمجھتا ہوں کیونکہ رفع الیدین کرنے کی حدیثیں بہت زیادہ ہیں اور بہت صحیح ہیں۔[2] غور فرمائیے …!! کیا اس منطق کو حضرت شاہ صاحب نہ پا سکے کہ رفع الیدین تو منسوخ ہے، اور میں ان لوگوں سے اظہار محبت کیوں کر رہا ہوں، جو رفع الیدین پر عامل ہیں۔ جب کہ امر واقعہ اس کے خلاف ہے اور حنفی مذہب کی مستند کتاب ’’درّمختار‘‘ میں ہے کہ جس نے کہا کہ رفع الیدین سے نماز میں نقصان آتا ہے، اس کا قول مردود ہے اور رکوع میں جانے سے اور رکوع سے اٹھنے کے وقت رفع الیدین کرنے سے کچھ نقصان نہیں ہے۔(۱؍۵۸۴) پھر مذاہبِ اربعہ میں سے تین مذہب مالکیہ، شافعہ، حنابلہ رفع الیدین کے حامی ہیں۔ کیا یہ سب لوگ
Flag Counter