Maktaba Wahhabi

471 - 829
(نعوذ بااللّٰہ) منسوخ پر عمل کرتے ہیں۔ ان کو نسخ کا علم نہ ہوسکا ہو۔ بعیداز عقل ہے …… پھر یہی نہیں کوفیوں کے ماسوا جملہ محدّثین وفقہاء اس کے قائل تھے۔ ابن عساکر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کا انتقال اسی مسلک پرہوا تھا۔ (۱۵؍۷۸؍۲) بلکہ ہمیں تو بذاتِ خود حنفیہ سے بھی ایسے افراد نظر آتے ہیں ، حنفی ہونے کے باوجود ان کا عمل رفع الیدین پر تھا۔ چنانچہ قاضی ابو یوسف کے شاگرد عصام بن یوسف ابو عصمہ کے بارے میں یہ بات مشہور ہے: ((کَانَ یَرفَعُ یَدَیہِ عِندَ الرَّکُوعِ وَالرَّفعِ مِنہُ)) [1] یعنی وہ رکوع کو جاتے وقت، اور اٹھتے وقت رفع الیدین کرتے تھے۔ اس روایت پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے سکوت کیا ہے جو اس کے قابلِ استدلال ہونے کی دلیل ہے اور حافظ زیلعی حنفی نے بھی ’’نصب الرایہ ‘‘میں اس پر کلام نہیں کیا۔ نیز مولانا ظفر احمد عثمانی فرماتے ہیں: ((اِنَّ سَکُوتَہٗ فِی التَّخلِیصِ عَلٰی حَدِیثٍ یَدُلُّ عَلٰی صِحَّتِہٖ أَو حَسنِہٖ))[2] یعنی ’’حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا تلخیص میں سکوت اس بات پر دال ہے کہ حدیث ہذا صحیح ہے یا حسن۔‘‘ اور امام ابن دقیق العید نے باقاعدہ اس سے استدلال کیا ہے، کہ رفع یدین منسوخ نہیں ہے اور صاحب ’’سفر السعادۃ ‘‘ علاّمہ مجدالدین فیروز آبادی رقمطراز ہیں: کہ کثرتِ روایات کی و جہ سے( تین مواقع پر ثابت شدہ رفع الیدین) متواتر حدیث کے مشابہ ہے۔ اس مسئلہ میں چار سو حدیثیں اور آثار آئے ہیں۔ عشرہ مبشرہ صحابہ (جنہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی زندگی میں جنتی کہا تھا) نے ان کو روایت کیا ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح نماز پڑھتے رہے۔ یہاں تک کہ اس دنیا سے رحلت فرماگئے۔ اس کے سوا کچھ ثابت نہیں(بحوالہ ’’صلوٰۃ الرسول صلي الله عليه وسلم‘‘ مولانا سیالکوٹی مرحوم) مسئلہ ہذٰا کو احادیث میں’’کان یقیل یا کان یصلّی‘‘سے تعبیر کیا گیا ہے ،جو اس کے استمرار کی دلیل ہے ۔ اہلِ علم اس بات سے واقف ہیں کہ کام فعل مضارع پردوام و استمرار کا فائدہ دیتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’تلخیص الحبیر‘‘ میں ایک روایت نقل کی جس کے الفاظ یوں ہیں: ((زَادَ البَیہَقِیُّ فَمَا زَالَت تِلکَ صَلَاتُہٖ حَتّٰی لَقِیَ اللّٰہَ )) (۱؍ ۲۱) ’’بیہقی نے یہ زیادتی کی ہے کہ آپ کی نماز اسی طرح رفع یدین کے ساتھ رہی، حتیٰ کہ اﷲ سے جاملے۔‘‘
Flag Counter