Maktaba Wahhabi

545 - 829
سے سر اٹھاتے وقت، اور ساتھ ہی حدیث کی مختلف کتابوں سے حوالے دیئے ہیں اور ان حدیثوں کو صحیح بھی کہا ہے ۔البانی صاحب کا موقف عام اہلِ حدیث کے موقف سے ہٹا ہوا نظر آتا ہے۔ آپ اس بارے میں سائل کی تشفی فرمائیں؟ جواب: بحالتِ سجود جمہور اہلِ علم رفعِ یدین کے قائل نہیں۔ ان کا اعتماد ابن عمر، علی بن ابی طالب اور ابو موسٰی اشعری رضی اللہ عنہم سے مروی روایات پر ہے۔ ان روایات کو یہ مزیت (خصوصیت) حاصل ہے کہ ان کی نسبت صحیحین کی طرف ہے۔ اربابِ فن کے ہاں یہ بات معروف ہے کہ اعلی ترین درجہ متفق علیہ روایت کا ہے۔ جب کہ إثبات کی بیشتر روایات متکلم فیہ ہیں۔ صاحب ’’المرعاۃ‘‘ فرماتے ہیں: ’’ وَھٰذِہِ الأَحَادِیثُ ضَعَّفَھَا الجَمھُورُ وَ عَلَّلُوھَا ‘‘ (۱؍۵۵۰) یعنی((اثبات کی روایات کو جمہور نے ضعیف اور معلول قرار دیا ہے۔ مزیدرقمطراز ہیں: ((وَالحَقُّ فِی ذٰلِکَ مَا ذَھَبَ إِلَیہِ الجَمھُورُ، لِأَنَّ أَحَادِیثَ النَّفیِ صَحِیحَۃٌ صَرِیحَۃٌ فِی النَّفیِ، بِخِلَافِ أَحَادِیثِ الاِثبَاتِ۔ فَإِنَّھَا مَعلُولَۃٌ، وَ بَعضُھَا غَیرُ صَرِیحًۃٍ فِی الاِثبَاتِ۔ وَ لَو سُلِّمَ صِحَّتُھَا ، وَ لِکَونِھَا صَرِیحًۃً فَحَدِیثُ ابنِ عُمَرَ، وَ مَن وَافَقَہُ أَولٰی أَن یُّعمَلَ بِہٖ، لِکَونِہٖ أَصَحُّ ، وَ أَقوٰی ، وَ أَرجَحُ ، وَ أَصرَحُ)) یعنی اس بارے میں حق بات وہ ہے جسے جمہور نے اختیار کیا ہے، کیونکہ نفی کی حدیثیں نفی میں صحیح صریح ہیں بخلاف اثبات کے وہ معلول ہیں۔ بعض اثبات میں غیر صریح ہیں اور بفرضِ صحت اور صراحت بھی ابن عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے موافقین کی حدیث اولیٰ ہے کہ اس پر عمل کیا جائے۔ کیونکہ یہ زیادہ صحیح، زیادہ راجح، اور زیادہ واضح ہے۔ علاّمہ شوکافی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (( وَھٰذِہِ الأَحَادِیثُ لَا تَنھَضُ لِلاِحتِجَاجِ بِھَا عَلَی الرَّفعِ فِی غَیرِ تِلکَ المَوَاطِنِ۔ فَالوَاجِبُ البَقَائُ عَلَی النَّفیِ الثَّابِتِ فِی الصَّحِیحَینِ، حَتّٰی یَقُومَ دَلِیلٌ صَحِیحٌ یَقتَضِی تَخصِیصَہٗ ، کَمَا قَامَ فِی الرَّفعِ عِندَ القِیَامِ مِنَ التَّشَھُّدِ الأَوسَطِ )) [1] ’’اور یہ احادیث اس قابل نہیں ہیں کہ ان سے معروف مواقعِ رفع کے علاوہ پر استدلال کیا
Flag Counter