Maktaba Wahhabi

618 - 829
پتھر پر تھے۔[1] ... ابوالزناد کہتے ہیں کہ میں نے خارجہ بن زید سے سناکہ وہ ان اماموں کے عمل کو کوتاہی شمار کرتے تھے جو سلام پھیرنے کے بعد بیٹھے رہتے ہیں اور فرماتے کہ سنت طریقہ یہ ہے کہ امام اٹھ کر فوراً چلا جائے۔[2]...شعبی اور ابراہیم نے بھی بیٹھے رہنے کو مکروہ سمجھا ہے۔[3] ٭ ...اور یہ بات حضرت عمر سے بھی منقول ہے۔[4]... فقہ مالکی کی کتاب المدونۃ میں امام مالک کا قول منقول ہے کہ امام کو سلام کے فوراً بعد اُٹھ کر چلے جانا چاہئے، بیٹھے نہیں رہنا چاہئے۔ ا ن آثار کو ذکر کرنے سے مقصود عملاً اجتماعی دعا کی نفی ہے ورنہ اگر کوئی بیٹھا رہے تو اسکابھی جواز ہے جس طرح کہ دیگر روایات میں تصریح ہے ۔ فتوی اللجنۃ الدائمۃ سعودی عرب میں کبار علما پر مشتمل اللجنۃ الدائمۃ نے بھی اس بارے میں فتوی صادر کیا ہے، ملاحظہ فرمائیں ’’عبادات کی جملہ اقسامِ توقیفی ہیں۔جس کا مفہوم یہ ہے کہ ان کی ہیئات اور کیفیات کا طریق کار کتاب و سنت سے ثابت ہونا چاہئے۔ نماز کے بعد اجتماعی دعا کی مزعومہ صورت کا ثبوت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر سے نہیں ملتا۔ ساری خیر اسی میں ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کی پیروی کریں۔ نماز سے فراغت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو وِرد و و ظائف پڑھتے تھے، وہ مستند دلائل سے ثابت ہیں بعد میں انہی وظائف پر آپ کے خلفاءِ راشدین،صحابہ کرام اور ائمہ سلف صالحین کار بند رہے۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے فرامین کے خلاف جو طریقہ ایجاد کیا جائے گا، وہ مردود ہے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: من عمل عملا لیس علیہ امرنا فہوردّ جو دین میں نیا طریقہ ایجاد کرے، وہ ناقابل قبول ہے۔ جو امام سلام پھیرنے کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرتا ہے اور اس کے مقتدی بھی ہاتھ اٹھائے آمین، آمین کہتے ہیں، ان حضرات سے مطالبہ کیا جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے دلیل پیش کریں ورنہ اس عمل کی کوئی حقیقت نہیں، وہ ناقابل قبول اور مردود ہے۔ جس طرح ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿قُل ھَاتُوا بُرْھٰٰنَکُم إِنْ کُنتُم صَادِقِیْنَ ﴾(النمل:۶۴) سنت سے ہمیں کوئی دلیل نہیں ملی سکی جو ان کے دعویٰ کی مستند بن سکے۔‘‘[5]
Flag Counter