Maktaba Wahhabi

655 - 829
وقت پڑھی جا سکتی ہے۔ مزید آنکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے عصر کے بعد ظہر کے نوافل کی قضائی بھی ثابت ہے، اور فجر کے فرائض کے بعد پہلی دو رکعتیں پڑھنے کا جواز بھی منقول ہے۔ جب ممنوع وقت میں نوافل کی قضائی دی جاسکتی ہے تو فوت شدہ فرضوں کی قضاء بطریقِ أولیٰ جائز ہونی چاہیے۔ دوسرا ، ترتیب کا اہتمام وہاں ہو گا، جہاں کوئی عارضہ (رکاوٹ) لاحق نہ ہو۔ زیرِبحث محل و مقام میں مذکور حدیث کی بناء پر پہلے حاضر نماز ادا کی جائے۔ پھر فوت شدہ۔اسی طرح مغرب کی نماز بھی عشاء کے فرضوں کے بعد اور وتروں سے پہلے ادا کی جائے تاکہ وِتر رات کی آخری نماز بن سکیں۔ ’’ صحیح مسلم میں حدیث ہے: (( اِجعَلُوا آخِرَ صَلٰوتِکُم بِاللَّیلِ وِترًا)) [1] یعنی رات کی آخری نمازِ وِتر بناؤ۔ آپ کے درج کردہ الفاظ قریباً اسی حدیث کا مفہوم ہیں۔یہ بھی یاد رہے کہ عشاء کے فرض اور وِتر میں ترتیب ضروری نہیں بلکہ رات کی ساری نماز سے وتروں کو مؤخر کرنا ہی أفضل الامورہے۔ اس مقام پر علماء کا دوسرا گروہ اس بات کا بھی قائل ہے، کہ عصر اور عشاء کے امام کی اقتداء میں بالترتیب ظہر اور مغرب کی نیت بھی ہو سکتی ہے۔ گویا کہ ان کے نزدیک دونوں طرح اختیار ہے۔ ان کے پیشِ نظر بھی بعض دلائل ہیں جن کا ماحصل یہ ہے کہ ایک تو ترتیب ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ دوسرا اگر کوئی شخص اس حالت میں مَرجائے تو فوت شدہ نماز کے بارے میں ذمہ دار ٹھہرے گا، جب کہ حاضر فرض ساقط ہو جائے گا۔ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ اس طرح انسان مکروہ وقت میں قضائی سے بھی بچ جاتا ہے۔ جو مستحسن فعل ہے۔ لہٰذا عصر کے امام کی اِقتداء میں ملنے والا پہلے ظہر پڑھے پھر عصر کی نماز ادا کرے گا اور عشاء کے امام کی اقتداء میں مغرب کی تیسری رکعت میں تشہد بیٹھ جائے۔ جب امام عشاء کی چوتھی رکعت سے فارغ ہو تو اس کے ساتھ اکٹھے سلام پھیرے یا پہلے ہی سلام پھیر کر اپنے کو فارغ کرلے۔ لیکن اس میں امام کی مخالفت لازم آتی ہے جو درست بات نہیں۔ اس طرح پہلے قول پر تعمیل کی صورت میں مذکورۃ الصدر حدیث کی مخالفت لازم آتی ہے اور گھر لوٹ کر نماز پڑھنے سے اپنے کو جماعت کے اجر و ثواب سے محروم کرنا ہے، جو عاقل فہیم کے شایانِ شان نہیں۔ تیسرے قول میں بھی جواز کا پہلو غالب ہے، کیونکہ فوت شدہ نماز کی قضائی کا کوئی وقت مقرر نہیں۔ ہروقت دی جا سکتی ہے ۔ حدیث میں ہے:
Flag Counter