Maktaba Wahhabi

666 - 829
علماء اہلِ حدیث کے اکابر اس حدیث کے ساتھ فتویٰ دیتے رہے ہیں۔مولانا عبد الجبار مرحوم اس بارے میں فرماتے ہیں کہ اسی پر تعامل اہل سنت و مذاہب اربعہ وغیرہ چلا آیا ہے۔ غرض یہ کہ عورتوں کا انضمام اور انخفاض احادیث اور تعامل جمہور اہلِ علم از مذاہب اربعہ وغیرہ سے ثابت ہے اور اس کا مُنکر کتب احادیث اور تعامل اہلِ علم سے بے خبر ہے۔ واﷲ اعلم(عبد الجبار غزنوی) (فتاویٰ غزنویہ،ص:۲۷۔۲۸۔ فتاویٰ علمائے اہلِ حدیث ج:۳،ص:۱۴۸) جواب: شرع میں مرد اور عورت کا طریقہ نماز ایک جیسا ہے۔ دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ صحیح بخاری میں حدیث ہے : ((صَلُّوا کَمَا رَأَیتُمُونِی اُصَلِّی)) [1] (اے میری امت اس طرح نماز پڑھو) جس طرح تم مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو، یعنی ہو بہو میرے طریقے کے مطابق نماز پڑھو۔ حدیث ہذا کا عموم امت کے سب مردوں اور سب عورتوں کو شامل ہے اور جن بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے، کہ عورت اور مرد کی نماز میں فرق ہے وہ ضعیف ہیں۔ قابلِ حجت و استدلال نہیں۔ مثلاً ایک روایت میں ہے، کہ عورت کو سجدہ میں پیٹ وغیرہ ملا کر رکھنا چاہیے۔ اس کے بارے میں علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ یہ مرسل غیر صحیح ہے۔ اسے ابوداؤد نے ’’مراسیل‘‘ میں یزید بن ابی حبیب سے روایت کیا ہے۔(صفۃ الصلاۃ) مشہور مصنف مولانا محمد صادق سیالکوٹی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ بہت عورتیں سجدہ میں بازو بچھا لیتی ہیں، پیٹ کو رانوں سے ملا کر رکھتی ہیں اور دونوں قدموں کو بھی زمین پر کھڑا نہیں کرتیں۔ واضح ہو کہ یہ طریقہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان اور سنت پاک کے خلاف ہے۔ سنیے! حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت سے صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لَا یَبسُطُ اَحَدُکُم ذِرَاعَیہِ اِنبِسَاطَ الکَلبِ)) [2] یعنی ’’نہ بچھائے کوئی تمہارا (مرد یا عورت) دونوں بازو اپنے (سجدے میں) جس طرح کتا بچھاتا ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضور کے اس فرمان سے صاف عیاں ہے، کہ نمازی( مرد یا عورت) کو اپنے دونوں ہاتھ زمین پر رکھ کر دونوں کہنیاں، یعنی بازو زمین سے اُٹھا کر رکھنے چاہئیں ، پیٹ بھی رانوں سے جدا رہے اور
Flag Counter