Maktaba Wahhabi

667 - 829
سینہ بھی زمین سے اونچا ہو۔ (صلوٰۃ الرسول صلي اللّٰه عليه وسلم ) نیز علامہ شوکانی’’نیل الأوطار‘‘ میں رقمطراز ہیں، کہ یہ جانناچاہیے، کہ اس سنت(رفع یدین) میں مرد اور عوت برابر کے شریک ہیں اور کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس سے دونوں کے مابین فرق ثابت ہو۔اس طرح دونوں کے ہاتھ اٹھانے کی مقدار کوئی دلیل نہیں ہے۔ احناف سے مروی ہے، کہ مرد کانوں تک ہاتھ اٹھائیں اور عورتیں کندھوں تک کیونکہ اس میں ان کے لیے سَتر(پردہ) ہے، مگر اس پر بھی کوئی دلیل نہیں ہے۔ [1] صحیح بخاری کے’’ترجمۃ الباب‘‘میں اُمّ الدرداء کے أثر کے اصل الفاظ یوں ہیں: (( وَ کَانَت أُمُّ الدَّردَائِ تَجلِسُ فِی صَلَاتِھَا جِلسَۃَ الرَّجُلِ۔ وَ کَانَت فَقِیھَۃً )) [2] یعنی ’’امّ درداء اپنی نماز میں مردوں کی طرح بیٹھتی اور وہ فقیہ تھی۔‘‘ بلاشبہ اُمّ درداء تابعیہ ہے، کیونکہ مکحول راوی کا سماع تابعیہ صغریٰ سے ہے۔ کبریٰ صحابیہ سے نہیں۔ اس اعتبار سے یہ اثرِ تابعیہ ہوا، جو جمہور کے نزدیک حجت نہیں، لیکن حیران کن بات یہ ہے، کہ حنفیہ، جنھوں نے اس کو موجود علت کی بناء پر ردّ کیا ہے، ان کے نزدیک تو مرسل تابعی قابلِ حجت ہے۔ ان کا انکار فہم سے بالاتر ہے۔ اپنے معروف قاعدہ کی بناء پر حنفیہ کا عمل تو اثر ہذا کے مطابق ہونا چاہیے تھا۔ دراصل یہ سب تقلیدی جمود کی کرشمہ سازی ہے۔ جس سے اﷲ تعالیٰ سب کو محفوظ رکھے۔ آمین! واضح ہو کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اثر ہذا کو بطورِ دلیل پیش نہیں کیا، بلکہ ان کا طریقہ کار یہ ہے، کہ جب دلیل عام ہو اور اس عموم کے مطابق بعض علماء کا عمل ہو، تو اس اثر کے ساتھ وہ دلیل کو ترجیح دیتے ہیں، اگرچہ وہ اثر اکیلا قابلِ حجت نہیں ہوتا۔ اس بناء پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((وَلَم یُورِدِ البُخَارِیُّ اَثرَ أُمِّ الدَّردَائِ لِیَحَتَجَّ بِہٖ، بَل لِلتَقوِیَۃِ)) [3] یعنی بخاری نے اُمّ درداء کا اثر بطورِ دلیل و حجت کے ذکر نہیں کیا، بلکہ مقصود اس سے(عمومی دلائل سے ثابت شدہ مسئلہ کو) تقویت دینا ہے۔ ہمار ے شیخ کے شیخ امام عبد الجبار غزنوی رحمہ اللہ کا فتویٰ واقعی فتاویٰ علمائے حدیث (۳؍۱۴۸۔۱۴۹) پر درج ہے۔ لیکن انھوں نے جن روایات پر مسئلہ ہذا کی بنیاد رکھی ہے، وہ کمزور اور ناقابلِ حجت ہیں۔(کما سبق) دوسری بات یہ ہے، کہ مسلک اہلِ حدیث کتاب و سنت سے تمسّک کا نام ہے، قطع نظر اس بات کے،
Flag Counter